Zalim Ke Liye Bad Dua Karna

 

ظالم  کے لئے بد دعا کرنا

مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1761

تاریخ اجراء:25ذوالحجۃ الحرام 1445ھ/02جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا ظالم کے لئے بد دعا کرسکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً اس کے لئے ہدایت کی دعا کی جائے، ہاں ظالم  سے  توبہ اور ظلم چھوڑنے کی امید نہ ہو ، اس کا  مرجانا ہی امت کے حق میں بہتر ہو تو  پھر اس  کے  مرنے  کی دعا کرنا  بھی جائز ہے ۔باقی کسی سنی صحیح العقیدہ مسلمان جو کسی پر ظلم نہیں کرتا   اس کے لئے بد دعا نہ کی جائے ، وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو تو اس کے لئے  دعائے ہدایت کی جائے  کہ جو گناہ وہ کرتا ہے چھوڑ دے ۔

   رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”اگر کسی کافر کے ایمان نہ لانے پر یقین یا ظن غالِب ہو اور جینے سے دین کا نقصان ہو ، یا کسی ظالم سے امید توبہ اور ترکِ ظلم کی نہ ہو اور اس کا مرنا تباہ ہونا خلق کے حق میں مفید ہو ، ایسے شخص پر بد دعا دُرُست ہے۔“ (احسن الوعاءبنام  فضائل دعا، صفحہ 187، مکتبۃ المدینہ کراچی )

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :” سُنّی مسلمان اگر کسی پر ظالم نہیں تو اس کے لئے بددعا نہ چاہئے بلکہ دعائے ہدایت کی جائے کہ جو گناہ کرتاہے چھوڑ دے ، اور اگر ظالم ہے اور مسلمانوں کو اس سے ایذاہے تو اس پر بد دعا میں حرج نہیں۔“(فتاوی رضویہ ، جلد23، صفحہ 182، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم