Walidain Ki Bad Dua Ka Asar Hota Hai Ya Nahi ?

والدین کی بد دعا کا اثر ہوتا ہے یا نہیں ؟

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1022

تاریخ اجراء: 05محرم الحرام1445 ھ/24جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی کی ماں اکثر غصہ کی حالت میں اپنی اولاد کو بد دعا دے دیتی ہو، تو کیا ان بد دعاؤں کا اثر ہو سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاد پر لازم ہے کہ ہرگز ہرگز والدین  کی حق تلفی یا انہیں ناراض نہ کرے اگرچہ ماں باپ ان پرظلم کریں بلکہ ان کی خوشی  و رضا  حاصل کرنے میں لگی رہے،والدین کی نافرمانی  و ناراضگی میں دنیا و آخرت کی بربادی ہے۔

   والدین کو بھی چاہئے کہ اولاد  کے حقوق کا خیال رکھیں اور اگر ان کی کسی بات پر غصہ آجائے تو خود کو قابو میں رکھیں اور بددعائیں نہ دیں کہ اس سے اصلاح کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے اور  قبولیت کی گھڑی ہو تو بددعا کا اثر  بھی ظاہر ہو سکتا ہے، اگر بددعا لگ گئی تو خود انہیں بھی پچھتاوا ہو گا۔

   حدیثِ پاک میں ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” من أصبح مطيعا في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة، وإن كان واحدا فواحدا، ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار، وإن كان واحدا فواحدا " قال الرجل: وإن ظلماه ؟ قال: " وإن ظلماه، وإن ظلماه، وإن ظلماه “یعنی جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے درازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کے متعلق خدا کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لیے صبح ہی کو جہنم کے دو دروازے کھل جاتےہیں اور ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ایک شخص نے کہا:اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں؟فر مایا:اگرچہ ظلم کریں،اگرچہ ظلم کریں،اگرچہ ظلم کریں۔‘‘(الجامع لشعب الایمان،باب،حدیث 7538،الجزء العاشر، صفحہ 307،مطبوعہ:ریاض)

   فضائل دعا میں ہے:”حالتِ غضب میں بددعا کا قصد نہ کرے کہ غضب (غصہ) عقل کو چھپا لیتا ہے۔کیا عجب کہ بعدِ زوالِ غضب خود اس بددعا پر نادم ہو۔“(فضائل دعا،صفحہ110،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  اولاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”موقع پر چشم نمائی،تنبیہ،تہدیدکرے(مناسب موقع پر سمجھائے اور نصیحت کرے)مگر کَوْسْنا (بددعا) نہ کرے کہ اس کا کَوْسْنا ان کے لیے سببِ اصلاح نہ ہو گا بلکہ اور زیادہ اِفساد (بگاڑ) کا اندیشہ ہے۔“(اولادکےحقوق،صفحہ25،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   تفسیر صراط الجنان میں ہے:”غصہ میں اپنے کو یا اپنے بال بچوں کو کَوْسْنا نہیں چاہیے۔ ہر وقت رب تعالیٰ سے خیر ہی مانگنی چاہئے،نہ معلوم کو ن سی گھڑی قبولیت کی ہو اور بعض اوقات ایسے ہو بھی جاتا ہے کہ اولاد کیلئے بددعا کی اور وہ قبولیت کی گھڑی تھی جس کے نتیجے میں اولاد پر واقعی وہ مصیبت و آفت آجاتی ہےجس کی بددعا کی ہوتی ہے۔لہٰذا اس طرح کی چیزوں سے اِحتراز ہی کرنا چاہیے۔“(تفسیرصراط الجنان،جلد4،صفحہ291،292مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم