Ghair Mehram Mard Aur Aurat Ka Apas Me Hansi Mazak Rakhna Kaisa ?

غیر محرم مردو عورت کا میل جول رکھنا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7620

تاریخ اجراء: 26 ربیع الاخر  1442ھ/02دسمبر  2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ اجنبی مرد وعورت کا ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا ، میل جول رکھنا ،ایک دوسرے کی تصاویر بنانا شرعا  کیسا ؟ بالخصوص ایک جگہ ملازمت (Job) کرنے والے (Colleagues) اجنبی مرد وعورت کا ایسا کر نا کیسا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اجنبی مرد و عورت کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا ، بے تکلفی کے ساتھ میل جول رکھنا اور ایک دوسرے کی تصاویر بنانا ، سخت ناجائز و گناہ اور حرام ہے ۔یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام شرم و  حیا کا درس دیتا ہے ،رسول پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:الحیاء من الایمان یعنی حیا ایمان سے ہے ، نیز قرآن و حدیث میں واضح طور پر بد نگاہی و بے پردگی سے منع کیا گیا ہے ، اِسی وجہ سےحکم  شریعت یہ ہےکہ مرد، بلاضرورتِ شرعیہ غیر محرم عورت کے چہرے کو بھی نہیں دیکھ سکتا اور عورت کا سر کے بال، گلے ، گردن ،  کلائی وغیرہ کا کوئی حصہ غیر محرم کے سامنے  ظاہر کرنا یا ایسا باریک لباس پہن کر غیرمحرم کے سامنے آنا  ، جس سےاِن اعضا کا کوئی حصہ چمکے ،  یہ حرام ہے اور فی زمانہ فتنے کی وجہ سے چہر ے کا پردہ بھی لازم ہے۔

   اور جہاں تک ملازمت کا تعلق ہے ،تو شریعتِ مطہرہ عورت کوپانچ شرائط کے ساتھ ملازمت(Job)کرنے کی اجازت دیتی ہے، اگر اِن پانچ شرائط میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے، تو عورت کو نوکری کرنا ہرگز جائز نہیں۔ وہ شرائط یہ ہیں: (1)کپڑے باریک نہ ہوں جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ سِتر کا کوئی حصّہ چمکے (2)کپڑےتنگ و چُست نہ ہوں جو بدن کی ہیئت کو ظاہر کریں (3)بالوں ، گلے ، پیٹ ، کلائی  یا پنڈلی کا کوئی حصّہ ظاہر نہ ہوتا ہو (4)کبھی نامحرم کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے بھی تنہائی نہ ہو تی ہو (5)اس کے وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں فتنے کا خوف نہ ہو۔

   لہٰذا سوال میں بیان کردہ اُمور سخت ناجائز و حرام ہیں اور ایسی جگہ عورت کا نوکری کرنا بھی جائز نہیں ، بلکہ اُس پر لازم ہےکہ اوپر کی بیان کردہ شرائط کا خیال کرتے ہوئے ، خلافِ شرع حرکات چھوڑ دے ،ورنہ ایسی ملازمت فوراً چھوڑ دے ، جہاں اللہ عَزَّوجَل ورسولِ پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی والے کام کرنے پڑتے ہوں۔

   اللہ پاک نے مَردوں اور عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:﴿ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ ﴾ترجمۂ کنزُالعرفان : ’’مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں،مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں ۔‘‘ (پارہ 18 ،سورۃ النور ، آیت 30 ، 31)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:710ھ/1310ء) لکھتے ہیں: الزينة ما تزينت به المرأة من حلي أو كحل أو خضاب والمعنى ولا يظهرن مواضع الزينة إذ إظهار عين الزينة وهى الحلى ونحوہ مباح فالمراد بها مواضعها أو إظهارها وهي فى مواضعها لاظهار مواضعها لاظهار أعيانها ومواضعها الرأس والأذن والعنق والصدور والعضدان والذراع والساق ... إلا ماجرت العادة والجبلة على ظهوره وهو الوجه والكفان والقدمان ففي سترها حرج بين ترجمہ: زینت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے عورت سجتی سنورتی ہے، جیسے زیور، سرمہ اور (جائز) کلر وغیرہ اور چونکہ محض زینت کے سامان کو دکھانا مباح ہے، اس لیے آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان عورتیں اپنے بدن کے ان اعضا کو ظاہر نہ کریں جہاں زینت کرتی ہیں، جیسےسر، کان، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں اور پنڈلیاں، البتہ بد ن کے وہ اعضا جوعام طور پر ظاہر ہوتے ہیں، جیسے چہرہ،دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں،انہیں چھپانے میں چو نکہ مشقت واضح ہے، اِس لیے ان اعضا کو ظاہر کرنے میں حرج نہیں۔(لیکن فی زمانہ چہرہ بھی چھپایا جائے گا ۔)(تفسیر نسفی، سورۃ النور، آیت 31، جلد2، صفحہ500، مطبوعہ دارالکلم الطیب، بیروت)

   اور تفسیر صراط الجنان میں تفسراتِ احمدیہ کے حوالے سے منقول ہے : زیادہ ظاہر یہ ہے کہ آیت میں مذکور حکم نماز کے بارے میں ہے (یعنی عورت نماز پڑھتے وقت چہرے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے علاوہ پورا بدن چھپائے۔ یہ حکم عورت کو) دیکھنے کے بارے میں نہیں ، کیونکہ عورت کا تمام بدن عورت یعنی چھپانے کی چیز ہے۔ شوہر اور مَحرم کے سوا کسی اور کے لیے اس کے کسی حصہ کو بے ضرورت دیکھنا جائز نہیں اور علاج وغیرہ کی ضرورت سے بقدرِ ضرورت جائز ہے۔‘‘ (صراط الجنان ،جلد6،صفحہ 620،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   اوربے پردگی سے منع کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى ترجمۂ کنزُ العرفان :’’اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی ۔‘‘    (پارہ 22، سورۃ الاحزاب،آیت33)

   اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: (ایک قول یہ ہے کہ )اگلی جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ ہے،اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی اور اپنی زینت اور محاسن کا اظہار کرتی تھیں ،تاکہ غیر مرد اِنہیں دیکھیں ،لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں ۔‘‘ (تفسیر صراط الجنان ،جلد8،صفحہ21، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   شرعی پر دہ نہ کرنے والی عورتوں کے بارے میں رسول الله صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: صنفان من اهل النار لم ارهما: …نساء كاسيات،عاريات، مميلات،مائلات، رءوسهن كاسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وان ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا‘‘ ترجمہ : دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہیں،جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا۔(میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی ۔ایک جماعت )ایسی عورتوں کی ہوگی جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی،بے حیائی کی طرف دوسروں کو مائل کرنے اور خود مائل ہونے والی ہوں گی،ان کے سر ایسے ہوں گے،جیسے بختی اونٹوں کی ڈھلکی ہو ئی کوہانیں ہوں،یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جائے گی ۔(الصحیح لمسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساء الکاسیات ۔۔الخ،جلد 2،صفحہ213،مطبوعہ لاھور )

   مذکورہ بالا حدیثِ پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں : يسترن بعض بدنهن ويكشفن بعضه اظهارا لجمالهن وابرازا لكمالهن وقيل: يلبسن ثوبا رقيقا يصف بدنهن وان كن كاسيات للثياب عاريات فی الحقيقة ‘‘ترجمہ:اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے حسن وجمال اور بدن کےکمال کو ظاہر کرنے کی غرض سے کچھ بدن چھپا کر رکھیں گی اور کچھ بدن کھول کراور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ باریک کپڑے پہنیں گی،جس سے ان کا بدن جھلکے گا،اگرچہ یہ عورتیں بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی، لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی۔    (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد7،صفحہ 77،مطبوعہ کوئٹہ )

   عورت کا بد ن چھپانے کی چیز ہے،چنانچہ جامع ترمذی میں ہے : عن عبد اللہ، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم، قال: المرأة عورة ‘‘ ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : عورت ( تمام کی تمام) چھپانے کی چیز ہے ۔( جامع الترمذی ، ابواب الرضاع ، باب ماجاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات ، جلد 1 ، صفحہ 351 ، مطبوعہ لاھور )

   مردوں کو اجنبی عورتوں کے پاس جانے کی ممانعت کے متعلق حدیث پاک میں ہے: عن عقبة بن عامر، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال :ایاکم والدخول علی النساء“ترجمہ:حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ (شعب الايمان ،تحریم الفروج ، جلد 7، صفحہ309 ،مكتبة الرشد ، الرياض )

   اور مرد کے اجنبی عورت کو دیکھنےکے متعلق علامہ بُرہان الدین مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:593ھ / 1196ء) لکھتے ہیں:’’و لا یجوز ان ینظر الرجل الی الاجنبیۃ ‘‘ترجمہ : مرد کا اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے ۔ ( الھدایہ ، کتاب الکراھیۃ ، فصل فی الوطء و النظر و المس ، جلد 4 ، صفحہ 368، مطبوعہ دار احياء التراث العربي ، بیروت)

   عورت کے بے پردگی کرنے کا حکم بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: بے پردہ بایں معنی کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ کھلا ہو، جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یا گلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز ،تو اس طور پر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقاً حرام ہے، خواہ وہ پیر ہو یا عالم یا عامی جوان ہو ، یا بوڑھا۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد22،صفحہ239، 240،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   ایک اور مقام پر امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:لڑکیوں کا، اجنبی نوجوان لڑکوں کے سامنے بےپردہ رہنا بھی حرام۔‘‘ (ملخصاً از فتاویٰ رضویہ، جلد23،صفحہ690،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

  فی زمانہ عورت کا اجنبی مردکے سامنے اپنا چہرہ چھپانا واجب ہونے کے متعلق حاشیہ ارشاد الساری میں النہایۃ فی شرح الہدایۃ کے حوالہ سے ہے :سدل الشیئ علی وجھھا واجب علیھا، دلت المسئلۃ علی ان المرأۃ منھیۃ عن اظھار وجھھا للاجانب بلاضرورۃ‘‘ ترجمہ:عورت کا اپنے چہرے پر کپڑا ڈالنا واجب ہے، یہ مسئلہ اس بات پرد لالت کرتاہے کہ عورت کو بلا ضرورت اجنبی لوگوں پر اپنا چہرہ کھولنا منع ہے۔ (حاشیۃ ارشاد الساری الی مناسک الملا علی القاری ، فصل فی احرام المرأۃ، صفحہ 162، مطبوعہ مکہ )

   یونہی تنوير الابصار و درمختار میں ہے: تمنع المراۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین رجال لخوف الفتنۃ ملتقطا  ترجمہ : فتنہ کے خوف کی وجہ سے جوان عورت کا مَردوں کےسامنے چہرہ کھولنا منع ہے۔ (تنویر الابصار و درمختار ، کتاب الصلاۃ ، مطلب فی ستر العورۃ ، جلد2، صفحہ97، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں : اس طرح رفتہ رفتہ حاملان شریعت وحکمائے امت نے حکمِ حجاب دیا اور چہرہ چھپانا کہ صدر اول میں واجب نہ تھا واجب کردیا۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد14،صفحہ551،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   عورت کو مرد کے ساتھ بقدرِضرورت گفتگو کی اجازت ہے،نہ کہ بے تکلفی کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے کی ، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں: نجيز الكلام مع النّساء للأجانب ومحاورتهنّ عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهنّ رفع أصواتهنّ ولا تمطيطها ولا تليینها وتقطيعها لما في ذلك من استمالةالرّجال إليهنّ وَتحريك الشَهوَات منهم ومن ھذا لم تجز ان تؤذن المراۃ ترجمہ:ہم وقت ضرورت اجنبی عورتوں سے کلام کو جائز سمجھتے ہیں ،البتہ یہ جائز نہیں قرار دیتے کہ وہ اپنی آوازیں بلند کریں ،گفتگوکو بڑھائیں ،نرم لہجہ رکھیں یا مبالغہ کریں،کیونکہ اس طرح تو مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے اور ان کی شہوات کوابھارنا ہے، اِسی وجہ سے تو عورت کا اذان دینا جائز نہیں۔(رد المحتارعلی الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلا ۃ ،مطلب فی ستر العورۃ،جلد2،صفحہ97،مطبوعہ کوئٹہ )

   عورت کے لیے ملازمت جائز ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: یہاں پانچ شرطیں ہیں:(۱) کپڑے باریک نہ ہوں جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ ستر کا کوئی حصہ چمکے۔(۲)کپڑے تنگ وچست نہ ہو جو بدن کی ہیأت ظاہر کریں۔(۳) بالوں یا گلے یا پیٹ یاکلائی یا پنڈلی کا کوئی حصہ ظاہرنہ ہو۔(۴) کبھی نامحرم کے ساتھ کسی خفیف دیر کے لیے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو۔(۵) اس کے وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں کوئی مظنہ فتنہ نہ ہو۔یہ پانچ شرطیں اگر جمع ہیں، تو حرج نہیں اور ان میں ایک بھی کم ہے تو(عورت کانوکری کرنا)حرام۔“( فتاوی رضویہ ،جلد 22،صفحہ 248،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم