مجیب:محمد ساجد عطاری
مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: JTL-1829
تاریخ اجراء: 11 محرم الحرام 1446 ھ/18 جولائی 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اس طرح کے علمی مقابلے کروانا تعلیم ہی کا حصہ ہے کہ اس سے طلبا کی علمی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔نیز یہ طلبا کو علم دین حاصل کرنے پر ابھارنے کا ایک ذریعہ ہے، لہٰذا اس طرح کے مقابلے کروانا نہ صرف جائز ، بلکہ مستحب ہے، جبکہ کھیل و تفاخر وغیرہ مقصود نہ ہو نیز مقابلہ کروانے کے طریقہ کار میں بھی شرعی حدود و قیود کا مکمل خیال رکھا جائے ، مثلاً: درست جواب دینے پر تالیاں نہ بجائی جائیں،مرد و خواتین کا مخلوط اجتماع نہ ہو، میوزک نہ ہووغیرہ۔
اورجہاں تک انعام کی بات ہے ، تو مقابلے میں جیتنے والے کو اگر کوئی تیسرا شخص (یعنی جو مقابلے میں شریک نہیں وہ)انعام دے تو یہ بھی جائز ہوتا ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں ادارے کی طرف سے مقابلے میں پوزیشن حاصل کرنے والے کو انعام دینا بھی جائز ہےاور طالب علم کا انعام لینا بھی جائز ہے۔
دینی علوم میں مقابلہ کرنا دین کو تقویت دینا ہے، جیسا کہ محیط برہانی، رد المحتار، الاختیار اور تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے، واللفظ للآخر:’’الفقهاء إذا تنازعوا في المسائل، وشرط للمصيب منهم جعل جاز ذلك إذا لم يكن من الجانبين على ما ذكرنا في الخيل لأن المعنى يجمع الكل إذ التعليم في البابين يرجع إلى تقوية الدين وإعلاء كلمة اللہ‘‘ یعنی :جب مسائل میں فقہا کا اختلاف ہو اور ان میں سے جو درست ہو اس کے لیے انعام کی شرط کی گئی ہو، تو یہ جائز ہے، جبکہ یہ شرط دونوں جانب سے نہ ہو ، جیسا کہ ہم نے گھوڑوں کے مقابلے میں ذکر کیا، کیونکہ (شریعت کا مطلوب) معنی ان تمام صورتوں میں موجودہے اس لئے کہ دونوں ہی باب میں تعلیم، دین کی تقویت و اعلا کلمۃ اللہ کی طرف راجع ہے۔(تبيين الحقائق، كتاب الخنثيٰ، مسائل شتيٰ، جلد 6، صفحہ 228، المطبعة الكبریٰ)
جیتنے والے کو اگر ایسا شخص انعام دے جو مقابلہ میں شریک نہیں، تو یہ جائز ہے، جیسا کہ بدائع الصنائع، تحفۃ الفقہا، فتاوی ہندیہ اور شرح مختصر الطحاوی میں ہے، واللفظ للآخر:’’قال محمد: وإن كان الذي يجعل السبق رجل سوى المتسابقين، فيقول: أيكما يسبق فله كذا، كنحو ما يصنع الأمراء، فلا بأس به‘‘ یعنی امام محمد نے فرمایا: اگر انعام دینے والا مسابقہ کرنے والوں کے علاوہ ہو، کہ وہ کہے جو بھی سبقت لے گیا اس کے لیے انعام ہے، جیسا کہ اُمراء کرتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (شرح مختصر الطحاوي، كتاب السبق، جلد 7، صفحہ 369، دار البشائر الاسلاميہ)
نوٹ:واضح رہے کہ اگر ادارہ چندے سے چلتا ہے اور چندے سے ہی وہ انعام دینا چاہتا ہے ، تو اس کے حوالے سے وہ الگ سے دار الافتاء اہلسنت میں چندے کی تفصیلات بتا کر حکم معلوم کر لے۔
تنبیہ! یہ بھی واضح رہے کہ بعض ادارے مسابقے میں شمولیت کے لیے فیس لیتے ہیں اور پھر جیتنے والے کو تمام کی جمع شدہ فیس سے انعام دیا جاتا ہے اور جو نہ جیتے اس کی دی ہوئی فیس ضائع ہو جاتی ۔اس طرح کا مقابلہ کرنا ، جائز نہیں کہ یہ جوا ہے، کیونکہ اس میں انعام کے حصول کے لئے اپنا مال خطر (Risk)پر لگانا ہے جو کہ قمار اور حرام ہے۔
جُوئے کی تعریف کے بارے میں الذخیرۃ البرہانیہ،البحر الرائق، اور المحیط البرہانی وغیرہ میں ہے، واللفظ للآخر : ’’القمار مشتق من القمر الذی یزداد وینقص سمی القمار قماراً لا ن کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذهب مالہ الی صاحبہ ویستفیدمال صاحبہ فیزداد مال کل واحد منهما مرۃ وینتقص اخری فاذا کان المال مشروطاً من الجانبین کان قماراً والقمار حرام ولان فیہ تعلیق تملیک المال بالخطر وانہ لا یجوز‘‘ترجمہ:قمارقمرسےمشتق(نکلا)ہے۔قمروہ ہوتاہے، جوبڑھتااورگھٹتا رہتاہے۔اسے قماراس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ مقامرین (جُوا کھیلنے والوں )میں سےہرایک کوشش کرتاہےکہ اپنے صاحب کامال لے جائے اوردوسرے کے مال سے فائدہ حاصل کرے ، پس ان میں سے ہرایک کاکبھی مال بڑھ جاتاہے اورکبھی کم ہوجاتاہے، پس جب مال جانبین سے مشروط ہو، تواسے قمارکہاجاتاہے اورقمارحرام ہے اوراس لئے بھی کہ اس میں مال کی تملیک خطر(Risk) پرمعلق ہوتی اورایسا کرنا ، جائز نہیں ہوتاہے ۔(المحیط البرهانی فی الفقہ النعمانی ،جلد5، صفحہ 323، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟