Suar Ka Naam Lena Kaisa Hai ?

سُوَر  کا نام لینا کیسا؟

مجیب:  ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12255

تاریخ اجراء:     24 ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/24جون 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سُوَر  کا نام لینا کیسا؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سُوَر   اگرچہ کہ نجس العین جانور ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز  نہیں کہ اس کا نام لینا ہی ناجائز و  گناہ ہوجائے، لہذا اگر  سُوَر   کا  نام  کسی وجہ سے لینا پڑتا ہے تو اس میں حرج نہیں ۔

   البتہ یہ ضرور ہے کہ عوام میں اس حوالے سے سخت غلط فہمی پائی جاتی ہے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سُوَر   کا نام لینے سے وضو ہی ٹوٹ جاتا ہے یہ بات بالکل غلط ہے، کیونکہ وضو ٹوٹنے کے مخصوص اسباب ہیں جو شریعت نے واضح طور پر بیان فرما دئیے ہیں ، ان میں سُوَر   کا نام لینا کہیں شامل نہیں لہذا یہ کہنا کہ سُوَر  کا نام لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، بالکل غلط بات ہے ۔

   یونہی بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سُوَر   کا نام لینے سے زبان ناپاک ہوجاتی ہے بلکہ بعض لوگ تو معاذ اللہ اس میں یہ قید بھی لگاتے ہیں کہ چالیس دن تک زبان ناپاک ہوجاتی ہے یہ  بات بھی بالکل بے سر و پا ہے اس کی کوئی اصل نہیں، کیونکہ خود قرآنِ پاک میں ایک سے زیادہ مقامات پر سُوَر    کا  ذکر مذکور ہےلہذا ایسی بے سر و پا باتوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

   قرآن میں ایک سے زائد مقامات پر خنزیر کا ذکر آیا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :”اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِۚ“ترجمہ کنزالایمان:اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خداکا نام لے کر ذبح کیا گیا۔ (القرآن الکریم،پارہ02،سورۃ البقرۃ، آیت:173)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مولاناسید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”خنزیر (سور) نجس العین ہے اس کا گوشت پوست بال ناخن وغیرہ تمام اجزاء نجس و حرام ہیں کسی کو کام میں لانا جائز نہیں چونکہ اُوپر سے کھانے کا بیان ہورہا ہے اس لئے یہاں گوشت کے ذکر پر اکتفا فرمایا گیا۔    (تفسیر خزائن العرفان، ص 56، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم