Soodi Raqam Qabristan Ki Tameer Mein Lagane Ka Hukum

 

سُودی رقم قبرستان کی تعمیر میں لگانے کا حکم

مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3338

تاریخ اجراء: 02جمادی الاخریٰ 1446ھ/05دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مجھے انشورنس ملی ہے، اس میں سے میں نے جو رقم خود دی تھی وہ میں نے اپنے پاس رکھ لی ہے اور باقی سود ہے 10 لاکھ، کچھ رقم میں نے شرعی فقیر کو دے دی اور باقی رقم کے لیے میں چاہتا ہوں کہ گاؤں میں لوگ قبرستان کی چاردیواری نہیں بنوا سکتے ،جس کی وجہ سے جانور قبرستان میں آتے ہیں،تو کیا میں ان سود والے پیسوں سے بغیر ثواب کی نیت کے قبرستان کا کام کروا سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سود لینا اور دینا ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور اس سے حاصل ہونے والا مال، مالِ حرام ہوتا ہے اور سودی معاملہ ختم کر کے اس سے توبہ کرنا ضروری ہے، اور توبہ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس حرام مال سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے یہ مال بغیر ثواب کی نیت کے کسی شرعی فقیر یعنی مستحق زکوۃ کو دے دیا جائے۔ پھر وہ چاہے تو اپنی مرضی سے وہ کل یا بعض رقم مسجد، مدرسے یا قبرستان کی دیوار بنانے وغیرہ دینی ضرورتوں کے لیے دے سکتا ہے۔مگر سود کی رقم ڈائریکٹ مسجد ،مدرسہ  یا پھر قبرستان کی کسی بھی قسم کی  تعمیر وغیرہ میں نہیں لگا سکتے۔

   سودی رقم کے متعلق حکم شرع کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے فرمایا:”یہی حکم سُود وغیرہ عقودِفاسدہ کاہےفرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداء تصدق کردے ۔۔۔ہاں جس سے لیا انہیں یا ان کے ورثہ کو دینا یہاں بھی اولٰی ہے،کما نص علیہ فی الغنیۃ والخیریۃ والھندیۃ وغیرھا (جیسا کہ غنیہ، خیریہ اور ہندیہ وغیرہ میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔)(فتاوی رضویہ،ج23،ص 551،552،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ایک سوال میں سود کا پیسہ صدقات و خیرات بالخصوص تعمیر مسجد میں لگانے کے متعلق سوال ہوا تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا:” سود حرام قطعی ہے اور اس کی آمدنی حرام قطعی اور خبیث محض ہے ۔۔۔زر حرام والے کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جس سے لیا اسے واپس دے وہ نہ رہا اس کے وارثوں  کو دے پتہ نہ چلے تو فقراء پر تصدق کرے، یہ تصدق بطور تبرع واحسان و خیرات نہیں بلکہ اس لئے کہ مال خبیث میں اسے تصرف حرام ہے اور اس کا پتہ نہیں  جسے واپس دیا جاتا لہٰذا دفع خبث وتکمیل توبہ کے لئے فقراء کودینا ضرور ہوا اس غرض کے لئے جومال دفع کیا جائے وہ مساجد وغیرہ امور خیر میں صرف کہ خبیث ہے اور یہ مواضع خبیث کا مصرف نہیں ، ہاں فقیر اگر لے کر بعد قبول و قبضہ اپنی طرف سے مسجد میں دے دے تو مضائقہ نہیں ۔ (فتاوی رضویہ،ج 17،ص 351،252،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم