Snooker Club Banane Ka Hukum

سنوکر کلب بنانے کا حکم

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2705

تاریخ اجراء: 28شوال المکرم1445 ھ/07مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا سنوکر کلب بنانا، جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سنوکر کلب بنانے کی اجازت نہیں ہے کہ سنوکرکلب پرکھیلی جانے والی گیمیں عمومالہوولعب والی ہوتی ہیں اور لہوولعب شریعت کی نظرمیں پسندیدہ نہیں نیزیہاں لہوولعب پراجارہ ہوتاہے جبکہ لہوولعب پراجارہ درست نہیں ،نیز اس طرح کے کلبوں میں عام طورپر شرط ہوتی ہے کہ جو شخص کھیل ہارے گا ، تو ان سب کھیلنے والوں کی طرف سے کلب کی فیس وہی ادا کرے گا ،اوریہ شرط بھی جائزنہیں ۔نیز ان کلبز میں کھیلنے والے عموما کھیل کی وجہ سے نماز بھی چھوڑ دیتے ہیں ، اورمختلف قسم کے گناہوں میں مبتلاہوتے ہیں ۔لہذاان وجوہات کی بنا پر سنوکر کلب کا کھولنا ناجائز اور غیر شرعی کاموں میں مدد کرنے میں  داخل ہے، اس لیے سنوکر کلب کھولنا یا اس کے لیے کسی قسم کا تعاون کرنا ہرگز درست نہیں۔

   قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشْتَرِیۡ لَہۡوَ الْحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ بِغَیۡرِ عِلْمٍ﴾ ترجمہ ٔ کنز الایمان : اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکا دیں بے سمجھے ۔“(پاره21 ، سورة لقمان، آيت:6)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں”ہر کھیل اور عبث فعل ، جس میں نہ کوئی غرضِ دین ، نہ کوئی منفعتِ جائزہ دنیوی ہو ، سب مکروہ و بے جا ہیں ، کوئی کم ، کوئی زیادہ۔ “           (فتاوی رضویہ ، ج24  ، ص78 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   تکملہ بحر الرائق میں ہے  ولا یجوز الاجارۃ علی شیء من الغناء واللھو “ ترجمہ : گانے اور لہو (یعنی کھیل کود اور فضول کاموں) پر اجارہ جائز نہیں ۔(تکملۃ البحر الرائق ، ج8 ، ص 23 ، دار الكتاب الإسلامي)

   العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے” (سئل) فيما إذا استأجر زيد من عمرو آلات لهو ولعب يسمونها بالمناقل والطاب والدك لأجل اللعب بها مدة معلومة فهل لا تصح الإجارة؟

    (الجواب) : نعم قال في البدائع ومنها أن تكون المنافع مباحة الاستيفاء فإن كانت محظورة الاستيفاء لم تجز الإجارة وقال في الملتقى بعد ذكره كسر آلة اللهو ويصح بيع هذه الأشياء وقالا لا يضمن ولا يجوز بيعها وعليه الفتوى. اهـ. قال في الكافي لهما أن هذه الأشياء أعدت للمعصية فبطل تقومها كالخمر والفتوى على قولهما لكثرة الفساد فيما بين الناس. اهـ. والبيع والإجارة أخوان؛ لأن الإجارة بيع المنافع“ترجمہ:سوال:اس  صورت کے متعلق سوال کیاگیاکہ جب زید،عمروسےکھیل کودکے آلات جن کومناقل اورطب اوردک (خاص قسم کے کھیل کے سامان)کہتے ہیں ،ایک معلوم مدت تک کے لیے اجارے پرلے ،ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے، توکیایہ اجارہ درست  نہیں ہوگا؟

   الجواب:جی ہاں ۔بدائع میں فرمایا:اوراجارے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ منافع کاحاصل کرنامباح ہو، پس اگرمنافع کاحاصل کرناممنوع ہواتواجارہ جائزنہیں ہوگا۔اورملتقی میں  جہاں انہوں نے آلہ لہوکوتوڑنے کاذکر فرمایا تواس کے بعدفرمایا:اوران اشیاکی بیع درست ہے اورصاحبین نے فرمایا:وہ تاوان نہیں دے گا اوران کی بیع جائزنہیں ہے اوراسی پرفتوی ہے ۔(ملتقی کی عبارت مکمل ہوئی۔)کافی میں فرمایا:صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ یہ اشیاگناہ کے لیے تیار کی گئی ہیں ،تویہ متقوم نہ رہیں جیسے شراب اورفتوی صاحبین کے قول پرہے لوگوں کے درمیان بگاڑکی کثرت کی وجہ سے ۔(کافی کی عبارت مکمل ہوئی ۔)اوربیع اوراجارہ دونوں ایک ہی قسم سے ہیں کیونکہ اجارہ،منافع کی بیع ہے ۔ (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ،کتاب الاجارۃ،ج 2،ص 140،دار المعرفۃ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم