شہید قرآنِ پاک اور دیگر مقدس اوراق کو جلا دیا جائے یا کیا کیا جائے؟ |
مجیب:مولانا نوید چشتی صاحب زید مجدہ |
مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:Pin 6243 |
تاریخ اجراء:24ذوالقعدۃالحرام1440ھ82جولائی2019ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ شہید قرآن پاک اور دیگر مقدس اوراق کو جلانا ، جائز ہے یا نہیں؟ اگر جلانا ، جائز نہیں ، تو ان کو محفوظ کرنے کا بہتر طریقہ کون سا ہے؟ سائل:شیخ کامران (راولپنڈی) |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
جوقرآن پاک اور کُتب کے وہ حصے جن پر کوئی آیت لکھی ہو،قابل استعمال نہ رہے ہوں، ان کو جلانا شرعاً جائز نہیں، اسی طرح کاغذات اور کتب کے وہ حصے جن پر احادیث،اللہ تعالیٰ ، رُسُل یا ملائکہ کے اسماء ہوں اورقابل استعمال نہ رہے ہوں ان اوراق کو بھی جلانے کی اجازت نہیں ہے،بلکہ ایسے مصاحف اور اوراق کے لیے بہتر یہ ہے کہ ان کوکسی پاک کپڑے وغیرہ میں لپیٹ کر زمین میں دفن کر دیا جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ان پر بلا حائل مٹی نہ پڑے، بایں طور کہ ان اوراق سے جدا چھت کی طرح کوئی سل وغیرہ رکھ کر اس پر مٹی ڈال دی جائے اور اگرکوئی ایسی جگہ موجود نہ ہو یا کسی بھی وجہ سے دفن نہ کر سکتے ہوں ، تو کثیر پاک پانی میں کوئی وزنی پتھر وغیرہ باندھ کر اس طرح ٹھنڈا کر دیا جائے کہ یہ اوراق پانی کی تہہ میں چلے جائیں، وہیں پر گل جائیں، لیکن پانی کی سطح پر ظاہر ہو کر کناروں پر نہ آئیں، جہاں ان کی بے ادبی ہو۔ اس کے علاوہ جو بھی متبرک و مقدس کاغذات، ریپرزیالکھائی والے کاغذات و اخبار وغیرہ ہوں ، جن سے آیات قرآنیہ ، احادیث مبارکہ، اللہ تعالیٰ کے اسماء،رسل و ملائکہ کے اسماء کو محو کر دیا گیا ہو، ان کو جلا دینا جائز ہے۔ در مختار میں مقدس اوراق کے بارے میں ہے:”الکتب التی لا ینتفع بھا یمحی عنھا اسم اللہ و ملائکتہ و رسلہ و یحرق الباقی، ولا بأس بأن تلقی فی ماء جار کما ھی أو تدفن وھو أحسن کما فی الأنبیاء“اور کتابیں جو قابل انتفاع نہ رہیں،بوسیدہ ہوجائیں،ان سے اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور اللہ کے رسولوں کے نام مٹا دیے جائیں اور باقی کو جلا دیا جائے اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ انہیں اسی حالت میں جاری پانی میں بہا دیا جائے یا دفن کیا جائے اور دفن کرنا زیادہ بہتر ہے۔ جیسے کہ انبیاء کرام کو انتقال کے بعد دفن کیا جاتا ہے۔ ”وھو أحسن کما فی الأنبیاء“کے تحت علامہ شامی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”والدفن أحسن کما فی الأنبیاء و الأولیاء إذا ماتوا، و کذا جمیع الکتب إذا بلیت و خرجت عن الإنتفاع بھا اھ: یعنی أن الدفن لیس فیہ إخلال بالتعظیم، لأن أفضل الناس یدفنون، و فی الذخیرۃ: المصحف إذا صار خلقاً و تعذر القراءۃ منہ لا یحرق بالنار، إلیہ أشار محمد و بہ نأخذ، ولا یکرہ دفنہ، و ینبغی أن یلف بخرقۃ طاھرۃ و یلحد لہ لأنہ لو شق و دفن یحتاج إلی إھالۃ التراب علیہ و فی ذٰلک نوع تحقیر إلا إذا جعل فوقہ سقف وإن شاء غسلہ بالماء أو وضعہ فی موضع طاھر لا تصل إلیہ ید محدث و لا غبار و لا قذر تعظیماً لکلام اللہ عزوجل اھ“ یعنی ان مقدس اوراق کو دفن کرنا زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ انبیاء اور اولیاء کو انتقال کے بعد دفن کرنا زیادہ بہتر ہے اور اسی طرح تمام کتابوں کا حکم ہے، جب وہ بوسیدہ ہو جائیں اور ان سے نفع حاصل نہ کیا جا سکے اھ۔ یعنی ان کتابوں کو دفن کرنے میں ان کی تعظیم میں کوئی خلل نہیں ہوتا، اس وجہ سے کہ افضل لوگوں کو بھی دفن ہی کیا جاتا ہےاور ذخیرہ میں ہے کہ مصحف جب قابل استعمال نہ رہے اور اس سے پڑھنا متعذر ہو جائے تو اس کو آگ سے نہ جلایا جائے، اسی کی طرف امام محمد نے اشارہ کیا ہے اور اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں، اس کو دفن کرنا مکروہ نہیں ہے، البتہ مناسب یہ ہے کہ اس کو ایک پاک کپڑے میں لپیٹا جائے اور اس کے لیے لحد بنائی جائے، اس وجہ سے کہ اگر اس کے لیے شق(سیدھی قبر) بنائی گئی اور اس میں دفن کیا گیا تو اس پر مٹی ڈالنے کی طرف بھی محتاجی ہو گی اور اس میں ایک قسم کی تحقیر ہے، الّا یہ کہ اس کے اوپر چھت بنا دی جائے اور اگر چاہے تو اس کو پانی سے دھو دے یا اس کو کسی ایسی پاک جگہ پر رکھے، جہاں بے وضو و بے غسل کا ہاتھ، گرد و غبار اور گندگی نہ پہنچے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تعظیم کی وجہ سے ہے۔ (الدر المختار مع ردالمحتار،جلد 09،ص696، مطبوعہ پشاور) سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”احراق مصحف بوسیدہ و غیر منتفع علماء میں مختلف فیہ ہے اور فتوی اس پر ہے کہ جائز نہیں، قال فی الفتاوی عالمگیریۃ:” المصحف إذا صار خلقا و تعذرت القراء ۃ منہ لا یحرق بالنار أشار الشیبانی إلی ھٰذا فی السیر الکبیر و بہ نأخذ کما فی الذخیرۃ“ فتاوی عالمگیری میں فرمایا:جب مصحف پرانا اور بوسیدہ ہو جائے اور وہ پڑھے جانے کے لائق نہ رہے تو بھی اسے آگ میں نہ جلایا جائے، چنانچہ امام محمد شیبانی نے سیر کبیر میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، لہٰذا اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں، کتاب ذخیرہ میں اسی طرح مذکور ہے۔ بلکہ ایسے مصاحف کو پاک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کرنا چاہیے ۔ ”فیھا أیضا المصحف إذا صار خلقاً لا یقرأ منہ و یخاف أن یضیع یجعل فی خرقۃ طاھرۃ و یدفن و دفنہ أولی من وضعہ موضعا یخاف أن یقع علیہ النجاسۃ أو نحو ذٰلک و یلحد لہ لأنہ لو شق و دفن یحتاج إلیٰ إھالۃ التراب علیہ و فی ذٰلک نوح تحقیر إلا إذا جعل فوقہ سقف بحیث لا یصل التراب إلیہ فھو حسن أیضا کذا فی الغرائب“ یعنی اسی (عالمگیری) میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب مصحف بوسیدہ ہو جائے اور اسے نہ پڑھا جا سکے اور یہ اندیشہ ہو کہ کہیں گر کر بکھر جائے گا اور بے ادبی ہونے لگے گی تو اسے کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ دفن کر دیا جائے اور اسے دفن کرنا زیادہ بہتر ہے، بنسبت کسی ایسی جگہ رکھ دینے کے جہاں اس پر گندگی پڑے اور آلودہ ہو جائے اور لا علمی میں پاؤں کے نیچے روندا جانے لگے، نیز اس کی تدفین کے لیے صندوقچی قبر کی بجائے بغلی قبر بنائی جائے، اس لیے کہ اگر صندوق نما قبر بنائی گئی تو دفن کرنے کے لیے اس پر مٹی ڈالنے کی ضرورت پیش آئے گی اور یہ عمل بھی ایک لحاظ سے بے ادبی والا ہے، ہاں اگر مصحف شریف کو قبر میں رکھ کر اوپر چھت بنا دی جائے تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے اور نہ اس تک مٹی پہنچے تو بھی اچھی تدبیر ہے، اسی طرح فتاوی الغرائب میں مذکور ہے۔ اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے کہ احراق واقع ہوا ، کما فی حدیث البخاری، بغرض رفع فتنہ و فساد تھا اور بالکلیہ رفع اس کا اسی طریقہ پر منحصر کہ صورت دفن میں ان لوگوں سے جنہیں مصاحف محرقہ اور ان کی ترتیب خلاف واقع پر اصرار تھا، احتمال اخراج تھا، بخلاف ما نحن فیہ کہ یہاں مقصود حفظ مصاحف ہے، بے ادبی اور ضائع ہو جانے سے اور یہ امر طریقۂ دفن میں کہ مختار علماء ہے کما مر بنھج أحسن، حاصل۔ البتہ قواعد بغدادی و ابجد اور سب کتب غیر منتفع بہا ما ورائے مصحف کریم کو جلا دینا بعد محو اسمائے باری عز اسمہ اور اسمائے رسل و ملائکہ صلی اللہ تعالیٰ علیہم و سلم اجمعین کے جائز ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 23،ص338تا 340، رضا فاؤنڈیشن، لاھور) وقار الفتاوی میں ہے:”قرآن پاک کے بوسیدہ اور پرانے اوراق اور وہ اخبارات جن پر قرآنی آیات و احادیث وغیرہ لکھی ہوئی ہوتی ہیں، ان کو جمع کرنا اور اس کے بعد ایک مقام پر دفن کردینا یا کھلے پانی جیسے سمندر یا دریا وغیرہ میں پتھر باندھ کر ڈال دینا سب سے زیادہ مناسب ہے ۔ “ (وقار الفتاوی جلد 2 ، ص 100 ، بزم وقار الدین، کراچی) سیدی اعلیٰ حضرت ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”ادب و اجلال جہاں تک ممکن ہو بہتر ہے۔ فتح القدیر میں ہے:”کل ما کان فی الأدب و الإجلال کان حسناً“ہر وہ کام جو ادب و احترام میں داخل ہو وہ اچھا ہے ۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد 23،ص405، رضا فاؤنڈیشن، لاھور) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟