Shadi Me Nach Gana Karne Aur Isme Shirkat Karne Ka Hukum ?

شادی میں ڈھول بجانا،ناچنا ، گانا اور اس میں شرکت کرنا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: 6990- Pin

تاریخ اجراء:       18ذو القعدۃ الحرام1443ھ18جون 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس  مسئلے کے بارے میں کہ(1) شادی بیاہ کے موقع پر ڈھول بجانا، گانے گانا، ڈیک پر میوزک چلانا، آتش بازی کرنا کیسا؟

   (2) نیز شادی کی ایسی تقریب میں عزیز و اَقارب و دوست اَحباب کا شرکت کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)شادی بیاہ یا اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر لہو و لعب کے طور پر ڈھول بجانا، یونہی گانے گانا، ڈیک وغیرہ پر میوزک چلانا، آتش بازی کرنا اور اجنبی مَردوں عورتوں کا اختلاط سخت ناجائز وحرام اور اللہ عزوجل کی شدید نافرمانی والے کام ہیں۔ نکاح اور ولیمہ نہ صرف سنت ہے ،بلکہ انسان کے فطری تقاضوں کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ بہت بڑی نعمت بھی ہے، اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے  ہمیں چاہئے کہ نکاح اور شادی کے تمام تر معاملات کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق سرانجام دیں اور ہر اس چیز سے بچیں، جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔مگر آج کل نکاح اور شادی کے موقع پر غیر شرعی و غیر اخلاقی رسمیں اور پابندیاں دن بدن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں، گویاانہیں گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا، حالانکہ یہ تمام کام سخت ناجائز و حرام ہیں اوریہ بات بھی یاد رہے کہ فی زمانہ گھریلو لڑائی جھگڑوں اور طلاق کی دن بدن بڑھتی ہوئی شرح کا ایک سبب ان گناہوں کی نحوست بھی ہے، لہذا مسلمانوں پر لازم ہے  کہ وہ شادی کے موقع پر ہونے والی غیر شرعی و غیر اخلاقی رسموں اور پابندیوں کو ختم کریں اور علمائے  کرام  سے شرعی رہنمائی لے کر تقریب کے تمام تر معاملات سر انجام دیں،تاکہ نکاح جیسی عظیم سنت کی حقیقی برکتیں حاصل ہو سکیں۔

   ذیل میں قرآنی آیات و احادیث اور اقوالِ علماء و فقہاء ملاحظہ کرنے سے بخوبی واضح ہو جائے گا کہ  ان اُمور سے کس قدر سختی سے منع فرمایا گیا ہے:

   ڈھول کی حُرمت:

   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام“ ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول)حرام کیا اور فرمایا:ہر نشہ والی چیز حرام ہے۔ (سنن الکبری للبیھقی،کتاب الشھادات ، جلد 10،صفحہ 360،دار الکتب العلمیہ، بیروت(

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اپنی تقریبوں میں ڈھول جس طرح فساق میں رائج ہے بجوانا، ناچ کرانا حرام ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد23،صفحہ98،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   ایک اور مقام پر فرمایا:” ڈھول بجاناحرام ہے۔ ‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد24،صفحہ491،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور(

   ناچ گانے کی حُرمت:

   خوشی کے موقع پر باجے کی آواز کو دنیا و آخرت میں ملعون قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مسند بزار میں ہے:’’صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة،  مزمار عند نعمة، ورنة عند مصيبة‘‘ ترجمہ : دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں، نعمت کے وقت باجے کی آواز، اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز۔(مسند بزار، مسند ابی حمزہ انس بن مالک، جلد 14، صفحہ 62، مکتبۃ العلوم والحکم، مدینۃ المنورہ)

   اور گانوں کے متعلق سنن ابی داؤد و شعب الایمان میں ہے:’’الغناء ینبت النفاق فی القلب، کما ینبت الماء الزرع‘‘ ترجمہ : گانا دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے، جیسے پانی کھیتی کو اُگاتا ہے ۔( شعب الایمان ، جلد 7، صفحہ 108، مطبوعہ ریاض )

   فتاوی امجدیہ میں ہے: ’’ ڈھولک بجانا، ناجائز ہے، یونہی عورتوں کا اس طرح گانا کہ نامحرم کو آواز پہنچے اور وہ بھی تالیاں بجا کر، حرام ہے اور اس کا قصداً سننا بھی حرام ہے اور ایسی مجلس میں شرکت کا بھی یہی حکم ہے۔‘‘(فتاوی امجدیہ، حصہ4، صفحہ 44، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   اجنبی مَردوں و عورتوں کے اختلاط کی حرمت:

   شریعت نے مَرد و عورت دونوں کو پردے کاتاکیدی حکم دیا، اور بے پردگی سے منع فرمایا، چنانچہ قرآن پاک میں ہے : ﴿ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمْ ؕ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ؕ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوۡنَ ﴿۳۰﴾وَ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا ترجمہ کنز الایمان : ’’مسلمان مَردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے ،بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے، اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں، مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے ۔‘‘( پارہ 18، سورۃ النور، آیت 30،31)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’(لڑکیوں کا ) اجنبی نوجوان لڑکوں کے سامنے بے پردہ رہنا بھی حرام، ۔۔۔ اور جو اپنی لڑکیوں کو ایسی جگہ بھیجتے ہیں، بے حیا بے غیرت ہیں، ان پر اطلاقِ دیوث ہو سکتا ہے ۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 690، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   ایک اور مقام پر فرمایا:”بے پردہ بایں معنی کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ، ان میں سے کچھ کھلا ہو ،جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یا گلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز ،تو اس طور پر تو عورت کو غیر مَحْرَم کے سامنے جانا مطلقا حرام ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد22،صفحہ239تا240،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   آتش بازی کے متعلق جزئیات:

   مروجہ آتش بازی جو شادی بیاہ، شب برات وغیرہ مواقع پر کی جاتی ہے، حرام اور مال کا ضیاع ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ مال ضائع کرنے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیۡرًا ﴿۲۶﴾ اِنَّ الْمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَکَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا ترجمہ : کسی طرح بے جا خرچ نہ کرو، کیونکہ بے جا خرچ کرنے والے شیاطین کے بھائی ہوتے ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بہت بڑا نا شکرا ہے۔‘‘(پارہ 15، سورہ بنی اسرائیل، آیت 26، 27)

   فتاوی رضویہ میں ہے : ’’آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برات میں رائج ہے، بیشک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں تضییع مال ہے، قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی فرمایا۔ (پھر مذکورہ آیت پاک ذکر کرنے کے بعد فرمایا:) رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان اللہ تعالی کرہ لکم ثلثا قیل و قال و اضاعۃ المال و کثرۃ السوال “ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے تمہارے لیے تین کاموں کو ناپسند فرمایا :(1) فضول باتیں کرنا(2) مال کو ضائع کرنا (3) بہت زیادہ سوال کرنااور مانگنا۔

شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی” ماثبت بالسنۃ “میں فرماتے ہیں: ” من البدع الشنیعۃ ما تعارف الناس فی اکثر بلاد الھند من اجتماعھم للھو و اللعب بالنار، و احراق الکبریت،مختصرا“ترجمہ: بُری بدعات میں سے یہ اعمال ہیں جو ہندوستان کے زیادہ تر شہروں میں متعارف اور رائج ہیں، جیسے آگ کے ساتھ کھیلنا اور تماشہ کرنے کے لیے جمع ہونا ، گندھک جلانا وغیرہ۔‘‘( ملخصاً از فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 279 تا 280، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   پھر ایسے مواقع پر لوگوں کی ایک تعداد جمع ہوتی ہےاور اس وقت آتش بازی بسا اوقات جانی و مالی نقصان کا باعث بھی بنتی ہے اور یہ اپنے آپ کو ہلاکت والے کاموں میں ڈالنا ہے، جس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ترجمہ : اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔(پارہ 2،سورۃ البقرہ، آیت 195)

   اس آیت کریمہ کے تحت نور العرفان میں ہے : ’’معلوم ہوا کہ ہلاکت کے اسباب سے بھی بچنا فرض ہے۔‘‘( نور العرفان، صفحہ 37، نعیمی کتب خانہ، گجرات )

    اسی کے ساتھ آتش بازی قانونی طور پر بھی جرم ہے اورقانونی جرم کا اِرْتِکاب شرعاً  بھی درست نہیں۔ فتاوی رضویہ میں ہی ہے:’’ کسی ایسے امر کا ارتکاب جو قانوناً ناجائز ہو، اور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاً بھی ناجائز ہو گا، کہ ایسی بات کے لئے جرم قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے لئے پیش کرنا شرعاً بھی روا نہیں، قال تعالیٰ : ﴿ وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 192، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   (2) ایسی شادی جس میں ناجائز اُمور کا اِرْتِکاب ہو، اس میں شرکت کرنے کے متعلق مختلف صورتیں بنتی ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

   (۱) ایسی دعوت پہ جانے والا شخص  اگر جانتا ہے کہ وہاں نہ جانےسے ان لوگوں کو نصیحت ہو گی اور میری خاطر وہ حرام کام ترک کر دیں گے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ جانے سے انکار کرے، تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور ایسی حرکتوں سے باز آئیں۔

   (۲)اگر معلوم ہو کہ میرے شرکت کرنے کی وجہ سے وہ حرام کام نہیں کر سکیں گے، تو جانے میں کوئی بڑا حرج نہ ہو، تو اس پر لازم ہے کہ وہ دعوت میں شرکت کرے، تاکہ لوگ اس سے رُکے رہیں اور یہ شرکت اس کےلیے عظیم ثواب کا باعث ہے۔

   (۳) اگر جانے والے کو علم ہے کہ خاص دعوت والی جگہ ناجائز کام ہوں گے اور اس کے جانے نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور منع کرنا کار آمد ثابت نہ ہو، تو ایسی صورت میں وہاں جانا ہی جائز نہیں۔

   (۴) جس جگہ دعوت پر بلایا گیا ہے، حرام کام اس کے علاوہ دوسرے مقام پر ہو رہے ہوں، تو پھر دعوت والی جگہ پر جا سکتے ہیں اور بیٹھ سکتے ہیں، لیکن اگر بندے کی شخصیت ایسی ہو کہ وہاں جانے پر بھی لوگوں کی طرف سے متہم ہونے کا اندیشہ ہو، مثلاً شرکت کرنے والا عالم دین اور مقتدا و پیشوا ہے، شرعی رخصت پر عمل کے باوجود لوگ طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں گے، تو تہمت سے بچنے اور غیبت کا دروازہ بند کرنے کے لیے ایسے افراد کو شرکت سے بچنے کا حکم ہو گا۔

   شرکت نہ کرنے سے گناہ رُک سکتے ہیں، تو شرکت نہ کرنا لازم ہے۔ چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے :”رجل اتخذ ضیافۃ للقرابۃ أو ولیمۃ أو اتخذ مجلسا لأھل الفساد فدعا رجلا صالحا إلی الولیمۃ قالوا إن کان ھذا الرجل بحال لو امتنع عن الإجابۃ منعھم عن فسقھم لا تباح لہ الإجابۃ بل یجب علیہ أن لا یجیب لأنہ نھی عن المنکر“ترجمہ:ایک شخص نے اپنے رشتہ داروں کے لیے عام دعوت طعام یا دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا اور ساتھ ہی فسادیوں کے لیے( کھیل تماشے لہو ولعب کی) مجلس بھی آراستہ کی اورایک نیک شخص کو بھی دعوت نامہ بھیجا۔ ائمہ کرام فرماتے ہیں :اگراس شخص کا مقام ان کے نزدیک اتنا ہو کہ اگر وہ دعوت قبول کرنے سے منع کردے گا،تو وہ اپنے فسق بھرے کاموں سے باز آجائیں گے ،تو اس کے لیے اس دعوت کو قبول کرنا مباح نہیں، بلکہ اس پرواجب ہے کہ وہ دعوت کو قبول نہ کرے،کیونکہ یہ گناہ سے روکناہے۔(فتاوی ھندیہ ،کتاب الکراھیۃ ،الباب الثانی عشر،جلد5،صفحہ 343،دارالفکر ،بیروت)

   شرکت کرنے سے گناہ رُک سکتے ہیں، تو شرکت کرنا لازم ہے۔ چنانچہ حاشیہ شلبی میں ہے :”إن علم قبل الدخول إن کان محترما یعلم أنہ لو دخل علیھم یترکون ذلک احتراما لہ فعلیہ أن یذھب لأن فیہ ترک المعصیۃ والنھی عن المنکر“یعنی اگردعوت میں جانے سے پہلے معلوم ہوجائے کہ و ہاں پر خلافِ شرع اُمور ہوں گے اور وہ محترم شخصیت ہے کہ اسے پتہ ہے اگر وہ ان کے پاس جائے گا ،تو وہ لوگ اس کے احترام کی وجہ سے گناہ کے کاموں کو ترک کردیں گے ،تو اس پر لازم ہے کہ وہ جائے ،کیونکہ یہ معصیت کا ترک اور نہی عن المنکر ہے۔(حاشیہ شلبی مع تبیین الحقائق ،کتاب الکراھیۃ ،جلد6،صفحہ13،مطبوعہ قاھرہ)

   ایسی دعوتوں میں شرکت کے متعلق تفصیلی رہنمائی کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (اوپر جزئیات میں بیان کردہ دو صورتوں کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا):’’اور اگر یہ دونوں صورتیں نہیں، تو اگر جانتا ہے کہ جہاں کھانا کھلایا جائے گا، وہیں منکرات شرعیہ ہوں گے اور برات والے کا وعدہ محض حیلہ ہی حیلہ ہے، تو ہر گز نہ جائے ۔۔۔اور اگر واقعی ایسا ہی ہے کہ نفسِ دعوت منکرات سے خالی ہوگی، اگرچہ دوسرے مکان میں لوگ مشغول گناہ ہوں تو شرکت میں کوئی حرج نہیں۔ قال اللہ تعالی:﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ﴾ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔مگر عالم اگر جانے کہ میری اتنی شرکت پر بھی عوام مجھے متہم ومطعون کریں گے، تو نہ جائے کہ مواقع تہمت سے بچنا چاہیے اور مسلمانوں پر فتح باب غیبت ممنوع ہے۔‘‘) فتاویٰ رضویہ،جلد21 ،صفحہ609،611،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم