Shadi Ke Moqe Par Doodh Pilai Ki Rasam Ka Hukum

شادی کے موقع پردودھ پلائی کی رسم کا حکم

مجیب:ابو الحسن جمیل احمد غوری عطاری

فتوی نمبر:Web-864

تاریخ اجراء: 23 شعبان ا المعظم1444 ھ  /16 مارچ2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   شادی کے موقع پر دودھ پلائی کی رسم کی جاتی ہے جس میں بعض شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں، شرعی خرابیوں کے پیشِ نظر منع کرنے کی صورت میں بعض رشتے دار ناراض ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں کیا حکمِ شرعی ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دودھ پلائی کی رسم جس طرح عموماً رائج ہے  کہ اس میں بےپردگی وغیرہ ہوتی ہے یہ شرعاً ناجائز و گناہ ہے۔اور  رقم وغیرہ لینے کا حکم یہ ہے کہ اگر دولہا اپنی خوشی سے رقم دے تو لینا جائز ہے اور اگر وہ کم دینا چاہے مگر ناگواری کی حدتک اِصرار یعنی ضد کر کے اسے مجبور کر کے زیادہ لیے جائیں یا وہ اس خوف سے رقم دےکہ نہ دینےکی صورت میں اسے برا بھلا کہا جائےگا،ذلیل کیا جائے گا تو اس رقم کا لینا حرام ہے۔جوپیسے وغیرہ وہ ذلیل کیےجانےکےخوف سےاپنی عزت بچانے کے لیے دےوہ رشوت کےحکم میں ہیں،ان کا لیناہرگزجائزنہیں۔اگر لے لئے تو واپس کرنے ہوں گے ۔

   رہا معاملہ رشتہ داروں کی ناراضی کا، تو خلافِ شریعت بات میں رشتہ داروں  وغیرہ کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی،وہ ناراض ہوں تو ان کا قصور  ہے،ان کی وجہ سے اپنی آخرت خراب کرنے کی اجازت نہیں اور حدیث پاک میں  ہے کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ ایک اور حدیث پاک کے مطابق جو لوگوں کو راضی کرکے اللہ پاک کی ناراضی چاہے گا تو اللہ بھی اس سے ناراض ہوگا اور مخلوق کو  بھی اس سے ناراض کردے گا،لہٰذا کسی بھی حال میں احکامِ شریعت کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔

   حدیث پاک میں ہے:”لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘‘ یعنی اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد18، صفحہ 170،حدیث:381، مطبوعہ:قاھرہ)

    سنن ابنِ ماجہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من شر الناس منزلۃ عند اللہ یوم القیامۃ عبدا ذھب آخرتہ بدنیا غیرہ“یعنی قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برا ٹھکانا اس شخص کا ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد کر لی۔(سنن ابن ماجہ ،ابواب الفتن ، الحدیث:3966، صفحہ 612،مطبوعہ:ریاض)

   الزھد الکبیر للبیہقی میں حدیث پاک ہے ،فرمایا:”من طلب محامد الناس بمعاصی اللہ عاد محامدہ ذاما“ یعنی جس نے اللہ عزوجل کی نافرمانیاں کر کے لوگوں کی تعریفیں طلب کیں تو اُس کی تعریفیں کرنے والا اس کی مذمَّت کرنے لگے گا۔‘‘(الزھد الکبیر للبیھقی،، الحدیث:888،صفحہ331،مطبوعہ:دارالجنان ، بیروت)

              اسی میں ایک اور فرمانِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:”من اراد سخط اللہ ورضا الناس عاد محامدہ من الناس ذاما“یعنی جس نے اللہ پاک کی ناراضی اور  لوگوں کی رضامندی  چاہی ،تو اُس کی تعریف کرنے والا اس کی مذمَّت کرنے لگے گا۔(الزھد الکبیر للبیھقی،، الحدیث:887،صفحہ331،مطبوعہ:دارالجنان ، بیروت)

              الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من ارضی اللہ بسخط الناس کفاہ اللہ ومن اسخط اللہ برضی الناس وکلہ اللہ الی الناس“یعنی جس نے لوگوں کو ناراض کرکے اللہ پاک کوراضی کیا اللہ پاک اُسے کافی ہے اور جس نے لوگوں کو راضی کرکے اللہ پاک  کو ناراض کیا اللہ پاک اُسے لوگوں کے ہی سپرد فرما دے گا۔  (الاحسان بتریتب صحیح ابن حبان، الحدیث: 277،جلد1، صفحہ511،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

   المعجم الکبیر میں ہے،رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:”من تحبب الی الناس بما یحبوہ وبارز اللہ لقی اللہ تعالیٰ وھو علیہ غضبان“یعنی جس نے لوگوں کے لئے وہ چیز پسند کی جس سے وہ محبت کرتے ہیں اور اللہ عزوجل ( کی نافرمانی کرکے اُس ) سے مقابلہ کیا  تو وہ بروزِ قیامت اللہ عزوجل سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ پاک اس سے ناراض ہو گا۔(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد17، صفحہ 186،حدیث:499، مطبوعہ:قاھرہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم