Imtihan Ke Liye Advance Fees Dena Kaisa?

 

اسکول کے امتحان کے لیے ایڈوانس فیس دینے کا حکم

مجیب:مفتی محمد حسان عطاری

فتوی نمبر:WAT-3048

تاریخ اجراء: 04ربیع الاول1446 ھ/09ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    جو   مال  اپنا کام نکلوانے کے لئے دیا جائے  وہ رشوت  ہے تو اسکول  وغیرہ میں  امتحانات  کے لئے اولاً        فیس جمع کروانی ہوتی  ہے   اس کے بعد  اجازت ملتی  ہے  تو اس کا کیا حکم ہوگا کیا اس طرح امتحانات دے کر ڈگری حاصل کرنا بھی جائز  نہیں ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   امتحانات  کے لئے فیس  دینا اور امتحانات  میں کامیابی حاصل  کرکے ڈگری  لینا  جائز  ہے ۔

   تفصیل مسئلہ :    امتحان  دینے کے لئے  اولا ً جو رقم دی جاتی ہے وہ  رشوت نہیں بلکہ  اجرت ہے جو ایڈوانس میں لی جاتی ہے اور ایڈوانس میں اجرت لینا جائز ہے  ۔یہ رشوت اس لئے نہیں کیونکہ اس کے مقابلے  میں معقول   قابل اجارہ کام  کیے جاتے ہیں  مثلا ً    سوالات  بنانے اور اس پر مکمل کام کرنے  والا  عملہ ہوتا ہے   ، اسی طرح پیپرز ہوجانے کے بعد ان کو چیک کرنے کا مرحلہ آتا   ہے،اورپیپرزلیناہے وغیرہ وغیرہ ان تمام کاموں  کے اخراجات  اسی  ایڈوانس فیس سے  دیئے جاتے ہیں لہذا   یہ اجارہ ہے۔  جبکہ  رشوت میں   بغیر  معاوضہ   کے  محض  اپنا کام  نکلوانے   کے لئے  پیسہ  دیا جاتا ہے   جیسے  جاب کے لئے  کسی آفیسر  کو پیسے دیتے ہیں تاکہ  جاب لگ جائے  حالانکہ  اس نے کچھ  کام نہیں کرنا  ہوتا ، ہاں اگر  کوئی بندہ آپ  کے لئے کام کرتا ہے  بھاگ دوڑ کرتا ہے  ، کاغذات وغیرہ تیار کرتا ہے یعنی    کوئی  قابل معاوضہ ورک  کرتا ہے اور اس کے عوض  آپ سے پیسے  لیتا ہے تو    یہ رشوت نہیں ہوگی اور اس کا  لینا جائز ہوگا   ۔

   رشوت کے متعلق  بحر الرائق میں ہے :”ما یعطیہ الشخص للحاکم وغیرہ لیحکم لہ اویحملہ علی ما یرید ترجمہ : رشوت یہ ہے کہ کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو کچھ دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا حاکم کو اپنی منشاء پوری کرنے پر ابھارے۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ،ج6،ص 285، دار الكتاب الإسلامي)

   فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’رشوت لینا مطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائزنہیں، جو پرایا حق دبانے کے لئے دیاجائے رشوت ہے، یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیاجائے رشوت ہے۔" (فتاوی رضویہ ،ج 23،ص597،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   امیراہل سنت  حضرت مولاناالیاس عطارقادری دام ظلہ تحریرفرماتے ہیں:" کمپنی کے مختلف چیزیں دینے کا مقصد صرف اپنی میڈیسن (دوائیں)زیادہ سے زیادہ بکوانا ہوتا ہے توکام نکلوانے کیلئے دینا رِشوت ہے ۔ " (غیبت کی تباہ کاریاں ،ص 374،مکتبۃ  المدینہ)

   ہدایہ میں ہے:”الاجرۃ لا تجب بالعقد و تستحق باحدی معان  ثلاثة:اما بشرط التعجیل او بالتعجیل من غیر شرط او باستیفاء المعقود علیہ“ ترجمہ: اُجرت محض عقد سے واجب نہیں ہوتی بلکہ تین چیزوں میں سے کوئی ایک پائی جائے تو اُجرت کا مستحق ہوگا، یا تو پیشگی دینے کی شرط لگائی ہو یا بغیر شرط ہی پیشگی اُجرت دے دی یا پھر اجارے میں طے کیا گیا  کام پورا ہوگیا۔(الھدایۃ،ج 01 ، ص 186 ، الناشر القاهرة)

   بہارِ شریعت میں ہے:”اُجرت ملک میں آنے کی چند صورتیں ہیں:(1) اُس نے پہلے ہی سے عقد کرتے ہی اُجرت دیدی دوسرا اس کا مالک ہوگیا یعنی واپس لینے کا اُس کو حق نہیں ہے (2)یاپیشگی لینا شرط کرلیا ہواب اُجرت کا مطالبہ پہلے ہی سے درست ہے (3) یامنفعت کو حاصل کرلیامثلاً مکان تھا اُس میں مدتِ مقرر ہ تک رہ لیا یا کپڑا درزی کو سینے کے لیے دیا تھا اُس نے سی دیا (4)وہ چیزمستاجر کو سپرد کردی کہ اگر وہ منفعت حاصل کرنا چاہے کرسکتا ہے نہ کرے یہ اُس کا فعل ہے مثلاً مکان پر قبضہ دے دیا یااجیرنے اپنے نفس کو تسلیم کردیا کہ میں حاضر ہوں کام کے لیے تیار ہوں کام نہ لیا جائے جب بھی اُجرت کامستحق ہے۔ (بہارِ شریعت،ج3،حصہ 14 ، ص110، مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم