Salaib Wala Locket Banana Bechna Aur Tashheer Karne Ka Hukum

صلیب والا  لاکٹ بنانا ،بیچنا اور تشہیر کرنے کا  کیاحکم ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7949

تاریخ اجراء:       27ذی الحجہ 1443ھ/27 جولائی 2022

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے  کے بارے میں کہ ایک مسلمان خاتون کسی جیولری شاپ کی ایجنٹ ہیں اور اس کا کام پروڈکٹ کی تشہیر کرنا ہے، اس کے پاس ایک Brochure (اشتہاری مواد پر مشتمل پمفلٹ یا کتابچہ ) آیا تھا، جس میں صلیب والے لاکٹ بھی تھے، جس کی اس نے دو عیسائی عورتوں کے سامنے تشہیر کی۔ شرعی رہنمائی فرما دیں کہ اس مسلمان خاتون کےمیں  بارے کیا حکمِ شرع ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جواب میں تین باتوں پر گفتگو کی جائے گی:

   (1) صلیب کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر۔

   (2) صلیب والے سونے چاندی کے لاکٹ بنا کر بیچنا۔

   (3) ایسے لاکٹ کی تشہیر کرنے کا حکم۔

   (1)صلیب کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر:

   عیسائیوں کا نظریہ ہے کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کو پھانسی دی گئی تھی اور جس لکڑی پر آپ کو سولی دی گئی، اس کی شکل ( + ) کی طرح تھی، آگے چل کر عیسائیوں نے اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں اپنے گلوں میں پہننا شروع کر دیا اور اس کی تعظیم شروع ہو گئی اور اپنے گرجا گھروں اور جھنڈوں وغیرہ پر نیز ان کے نزدیک ہر قابلِ تعظیم شے پر اسے بنایا جاتا ہے، المختصر یہ کہ یہ عیسائی مذہب کا شعار اور خاص علامت ہے۔

   جبکہ اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰروح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ ہی آپ کو سولی پر چڑھایا گیا، بلکہ اللہ تعالی نے یہودیوں کے مکر و فریب اور قتل سے محفوظ فرما کر آسمان کی طرف اٹھا لیا اور ان کی صورت کی مشابہت ایک دوسرے شخص پر ڈال دی اور یہودیوں نے اس شخص کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر سولی دی اور ان کو شہید کرنے کا دعوی کیا اور عیسائیوں نے ان کے اس دعوٰی کو سچ مان لیا، جبکہ اللہ تعالی نے ان دونوں اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں)کی تکذیب فرمائی اور قرآن پاک میں واضح طور پر عیسیٰ علیہ السلام کے سولی پر چڑھائے جانے اور ان کے قتل کیے جانے کی تردید فرمائی اور ان کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کا بیان فرمایا، لہذا عیسیٰ علیہ السلام کا سولی پر نہ چڑھایا جانا، اہل اسلام کا عقیدہ قطعیہ یقینیہ ایمانیہ ہے اور یہ ضروریاتِ دین میں سے ہے، جس کا منکر کافر ہے۔

   اور عیسیٰ علیہ السلام کے سولی دیے جانے کی یاد میں صلیب پہننا، اللہ تعالی کے فرمان عالیشان کے قطعا مخالف ہے اور جب یہ بات واضح ہے کہ صلیب عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے، تو برضا و رغبت، صلیب پہننا کفر ہے۔

   حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی نہ دیے جانے کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴿وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ-وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ-مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ-وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢا ، بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا﴾ترجمہ: اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم،اللہ کے رسول کو شہید کیا، حالانکہ انہوں نے نہ تو اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی، بلکہ ان (یہودیوں ) کے لیے (عیسیٰ سے ) ملتا جلتا (ایک آدمی)بنا دیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ( حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان کی پیروی کے ان کواس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا،  بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا تھا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پارہ 6،سورۃ النساء، آیت 157 تا 158)

   حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اٹھا لیے جانے کے عقیدے کے بارے میں شہزادہِ اعلی حضرت مولانا حامد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”مسئلہ اُولیٰ: یہ کہ نہ وہ(یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)قتل کیے گئے، نہ سولی دئیے گئے، بلکہ ان کے رب جلا وعلا نے انہیں مکر یہود عنود سے صاف سلامت بچا کر آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی صورت دوسرے پر ڈال دی کہ یہود ملاعنہ نے ان کے دھوکے میں اسے سولی دی، یہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ قطعیہ یقینیہ ایمانیہ۔ پہلی قسم کے مسائل یعنی ضروریات دین سے ہے، جس کا منکر یقینا کافر، اس کی دلیل قطعی رب العزۃ جل و علا کا ارشاد ہے۔“(فتاوی حامدیہ، صفحہ 140، مطبوعہ لاھور)

   کفار کے شعار کو برضا و رغبت اختیار کرنے کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”جو بات کفار یا بد مذہباں اشرار یافساق فجار کا شعار ہو، بغیر کسی حاجت صحیحہ شرعیہ کے  برغبت نفس اس کا اختیار ممنوع و ناجائز و گناہ ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 535، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صلیب کفر کی نشانی ہے، چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:”زي الكفرة نحو الصليب“ترجمہ: کفر کی نشانی جیسے صلیب (گلے میں ہونا)۔(تبیین الحقائق، کتاب اللقیط، جلد 3، صفحہ 300، مطبوعہ قاھرۃ)

   اپنے جسم پر صلیب لٹکانا کفر ہے، چنانچہ جامع الفصولین میں ہے:”شد زنارا على وسطه أو وضع صليباً على كتفه كفر“ترجمہ: جس نے گلے میں زنار باندھا یا کندھے پر صلیب رکھی، وہ کافر ہو گیا۔(جامع الفصولین، جلد 2، صفحہ 229،مطبوعہ کراچی)

   کفار کے شعار کو اختیار کرنے اور صلیب کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”ماتھے پر قشقہ تِلک لگانا یا کندھے پر صلیب رکھنا کفر ہے :”وفی منح الروض، لووضع الغل علی کتفہ فقد کفر اذا لم یکن مکرھا، وفیہ عن الملتقط، اخذ الغل جادا او ھازلا، یکفر الا اذا فعل خدیعۃ فی الحرب۔ اقول:  وھذا شیئ لایعرف فی دیارنا ولفظ جامع الفصولین وضع صلیبا علی کتفہ کفر، وھذا واضح فلعل مافی المنح تصحیف۔ واللہ تعالی اعلم“ترجمہ: منح الروض میں ہے اگر کسی نے اپنے کندھے پر زنجیر(صلیب) رکھی، تو کافر ہو گیا، بشرطیکہ مجبور نہ کیا گیا ہو، اور اسی میں ملتقط کے حوالے سے ہے کہ زنجیر خواہ سنجیدگی سے رکھی یا ہنسی مذاق سے، دونوں صورتوں میں اس کی تکفیر کی جائے گی، مگر یہ کہ جنگ میں کفار کو مغالطہ دینے کے لیے ایسا کیا۔ میں کہتاہوں (غل کے معنی زنجیرہیں) اور یہ اس معنی میں ہمارے شہروں میں متعارف نہیں۔ اور جامع الفصولین کے الفاظ یہ ہیں :” کسی نے اپنے کندھے پرصلیب رکھی، تو کافر ہو گیا اور یہ واضح ہے، لہذا منح الروض میں جو کچھ مذکور ہوا، وہ کتابت کی غلطی ہے، واللہ تعالی اعلم۔“(فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 549،550، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   (2) صلیب والے سونے چاندی کے لاکٹ بنا کر بیچنا:

   چونکہ صلیب پہننا عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے اور ان کے باطل عقیدے کی نشانی ہے اور شریعتِ مطہرہ کا ایک بنیادی اصول ہے کہ ہر وہ چیز جو ناجائز کام کی طرف لے جانے میں متعین ہو یا جس کا مقصودِ اعظم ہی گناہ کا حصول ہو، اسے بنانا اور فروخت کرنا، ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ یہ گناہ پر معاونت کرنا ہے اور قرآن پاک میں گناہ پر معاونت کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ لہذا سناروں کا صلیب والے سونے چاندی کے لاکٹ بنانا اور اسے بیچنا ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ ان چیزوں کو بنا کر بیچنے میں ان کے فعلِ کفر پر معاونت ہے اور کفر کے اسباب کی معاونت کرنا، جائز نہیں۔

   بلکہ فقہائےکرام نے صراحت فرمائی ہے کہ ایسی چیز جس سے گناہ کیا جا سکتا ہو، اسے ایسے شخص کے ہاتھ بیچنا کہ جس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ اس سے گناہ کا ارتکاب کرے گا، جائز نہیں، اس لیے کہ یہ گناہ کے کام پر مدد کرنا ہے، بلکہ بطورِ خاص سونے چاندی کے صلیب والے زیورات کے بارے میں صراحت فرمائی کہ اگر مسلمانوں کو مالِ غنیمت میں سونے چاندی کے ہار ملیں، جس میں صلیب بنی ہوئی ہو، تو ان کو توڑ دیا جائے اور اسی حالت میں اگر کسی مسلمان کو بھی فروخت کرنا ہو اور اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہو کہ وہ اسے خریدنے کے بعد عیسائیوں کو بیچ دے گا، تو یہ ہار اسے بیچنے کی بھی اجازت نہیں۔

   گناہ پر تعاون نہ کرنے کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔(پارہ 6،سورۃ المائدۃ، آیت 2)

   اس آیت کے تحت امام ابو بکر احمد الجصاص علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:” ﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِنهي عن معاونة غيرنا على معاصی اللہ تعالى“ترجمہ: آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی نافرمانی والے کاموں میں دوسرے کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔(احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 429، مطبوعہ کراچی)

   جس چیز کے عین کے ساتھ معصیت قائم ہو، اُسے بیچنے کے بارے میں علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما“ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ ان فقہاء کا کلام اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ جس چیز کے عین کے ساتھ معصیت قائم ہو، اسے بیچنا مکروہ تحریمی ہے۔    (در مختار، کتاب الجھاد، باب البغاۃ، جلد 6، صفحہ 409، مطبوعہ کوئٹہ)

   ایسی چیز کو بیچنے کے ناجائز ہونے کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم علیہ الرحمۃ’’ بحر الرائق‘‘ میں فرماتے ہیں:”وظاهر كلامهم في الأول أن الكراهة تحريمية لتعليلهم بالإعانة على المعصية“ترجمہ: فقہاء کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ اس صورت میں کراہت سے مراد کراہت تحریمی ہے، کیونکہ انہوں نے یہ علت بیان کی ہے کہ اسے بیچنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔(بحر الرائق، کتاب السیر، باب البغاۃ، جلد 5، صفحہ 240، مطبوعہ کوئٹہ)

   جس چیز کا مقصودِ اعظم ہی گناہ کا حصول ہو، اسے بیچنے کے بارے میں’’ جد الممتار علی رد المحتار‘‘ میں ہے:”ما کان مقصودہ الاعظم تحصیل معصیۃ معاذ اللہ تعالی کان شراؤہ دلیلا واضحا علی ذلک القصد فیکون بیعہ اعانۃ علی المعصیۃ“ترجمہ: جس شے کا مقصودِ اعظم ہی گناہ کا حصول ہو معاذ اللہ تعالی، تو اس کا خریدنا گناہ کے قصد پر واضح دلیل ہے، تو اس شے کا بیچنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔(جد الممتار، کتاب الحظر والاباحۃ ، جلد7، صفحہ76، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اسی بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”یہ اصل کلی یاد رکھنے کی ہے کہ بہت جگہ کام دے گی۔ جس چیز کا بنانا ، ناجائز ہو گا، اسے خریدنا، کام میں لانا بھی ممنوع ہو گا اور جس کا خریدنا،کام میں لانا منع نہ ہو گا، اس کا بنانا بھی ناجائز نہ ہو گا۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 464، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ناجائز کام پر مدد کرنے والی چیزیں بنانے اور فروخت کرنے کے ناجائز ہونے کے بارے میں در مختار میں ہے”فاذا ثبت کراھۃ لبسھا للتختم ثبت کراھۃ بیعھا وصیغھا لما فیہ من الاعانۃ علی ما لایجوز، و کل ماأدی الی ما لا یجوز لا یجوز“ترجمہ: جب ان (مرد کے لیے سونے ،پیتل اور تانبےکی ) چیزوں کی انگوٹھیاں پہننے کی ممانعت ثابت ہوگئی، تو اس کے بیچنے اور بنانے کی کراہت بھی ثابت ہوگئی، کیونکہ اس میں ناجائز کام پر مدد کرنا ہے اور ہر وہ کام جو ناجائز کام کی طرف لے جائے، وہ بھی ناجائز ہوتا ہے۔(در مختار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،جلد 9، صفحہ595، مطبوعہ کوئٹہ)

   جس چیز سے گناہ کیا جا سکتا ہو، اسے ایسے شخص کو بیچنا کہ جس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ اس سے گناہ کرے گا، جائز نہیں، چنانچہ درمختار میں ہے:”ويكره تحريما بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم لأنه إعانة على المعصية“ترجمہ: ایسوں کو اسلحہ بیچنا مکروہ تحریمی ہے، جن کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اس سے فتنہ پھیلائیں گے، کیونکہ انہیں بیچنا، گناہ کے کام پر مدد کرنا ہے۔(در مختار، کتاب الجھاد، باب البغاۃ، جلد 6، صفحہ 408، مطبوعہ کوئٹہ)

سونے چاندی کے صلیب والے زیورات کسی ایسے کو بیچنا  جو عیسائیوں کو بیچ دے گا، یہ بھی منع ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”وإن وجدوا فی الغنيمة قلائد ذهب أو فضة فيها الصليب والتماثيل، فإنه يستحب كسرها قبل القسمة، وإن أراد بيعها من رجل إن كان الذي يريد شراءها موثوقا به لا يخاف عليه بيعها من المشركين، فإنه لا بأس بالبيع منه وإن كان غير موثوق به، ويخاف عليه بيعها من المشركين، فإنه يكره بيعها منه“ترجمہ: اگر مسلمانوں کو مالِ غنیمت میں سونے چاندی کے ہار ملے، جس میں صلیب یا تصویریں تھیں، تو مستحب یہ ہے کہ تقسیم کرنے سے پہلے ان کو توڑ دیا جائے اور اگر کسی مسلمان کو فروخت کرنا ہو اور خریدار با اعتماد ہو اور اس سے یہ خوف نہ ہو کہ وہ مشرکوں کے ہاتھ بیچ دے گا، تو اس کو بیچنے میں حرج نہیں اور اگر وہ با اعتماد نہیں اور اس کے بارے میں یہ خوف ہو کہ وہ مشرکوں کو بیچ دے گا، تو اسے بیچنا مکروہ ہے۔(فتاوی عالمگیری، کتاب السیر، الباب الرابع، الفصل الثانی، جلد 2، صفحہ 215، مطبوعہ کوئٹہ)

   صلیب بنانے اور اسے بیچنے کے بارے میں موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:”لا يصح لمسلم بيع الصليب شرعا، ولا الإجارة على عمله۔۔۔وذلك بموجب القاعدة الشرعية العامة في حظر بيع المحرمات، إجارتها، والاستئجار على عملها“ترجمہ: شرعی اعتبار سے مسلمان کے لیے صلیب بیچنا اور اسے بنانے پر اجارہ کرنا درست نہیں ہے اور اس بارے میں عام شرعی قاعدہ ہے کہ حرام چیزوں کو بیچنا، اس پر اجارہ کرنا اور انہیں بنانے پر اجارہ کرنا، ممنوع ہے۔(موسوعہ فقھیہ کویتیہ، جلد 12، صفحہ 91، مطبوعہ مصر)

   (3) ایسے لاکٹ کی تشہیر کرنے کا حکم:

   جب یہ واضح ہو گیا کہ صلیب والے سونے چاندی کے لاکٹ بنانا اور اسے بیچنا ناجائز و گناہ ہے، تو ایسے پروڈکٹ کی تشہیر کرنا بھی ناجائز و گناہ اور اشاعتِ فاحشہ ہے اور اس کی تشہیر کرنے کے سبب ایک ناجائز فعل (ایسے لاکٹ کی خرید و فروخت) کا ارتکاب ہو گا اور یہ بھی گناہ کے اوپر مدد کرنا ہے۔

   لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ جیولری شاپ کی ایجنٹ مسلمان خاتون نے ایک ناجائز امر کا ارتکاب کیا ہے، لہذا وہ اپنے اس فعل سے توبہ کرے اور آئندہ ایسی کسی بھی پروڈکٹ کی تشہیر ہرگز نہ کرے، جس کی خرید و فروخت سے شریعت نے کسی بھی اعتبار سے منع کیا ہو اور اگر جیولری شاپ کی طرف سے اس خاتون کو پابند کیا گیا ہو کہ وہ ایسے پروڈکٹ کی بھی لازماً تشہیر کرے گی، تو ایسی نوکری کرنا ہی شرعاً جائز نہیں ہو گا کہ جس میں ناجائز فعل کا ارتکاب کرنا پڑے۔

   اور یہ بھی یاد رہے کہ ایسے لاکٹ کو بیچنا اور اس کی تشہیر کرنا، کفریہ کام پر اعانت کرنا ہے اور اپنے دنیاوی مفاد کے لیے کفریہ امور کی اعانت کرنا، ناجائز و گناہ ہے، بلکہ اگر کوئی اُس کفریہ امر کو اچھا سمجھتے ہوئے اعانت کرے، تو یہ کفر ہے۔

   کسی حرام کام کی ترغیب و تشہیر کرنا شرعا درست نہیں، چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ- فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ترجمہ:بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(پارہ8 1، سورۃ النور،آیت 19)

   اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:” اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے ۔۔۔البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعتِ فاحشہ کے اصل معنی میں بہت وسعت ہے، چنانچہ اشاعتِ فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:

   (1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر ِالٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو ،تو ا س کی اشاعت کرنا۔(4)حرام کاموں کی ترغیب دینا۔“

   ناجائز کام کرنے کی ملازمت کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:ملازمت دو قسم ہے،ایک وہ جس میں خود ناجائز کام کرنا پڑے۔۔ایسی ملازمت خود حرام ہے، اگر چہ اس کی تنخواہ خالص مال حلال سے دی جائے، وہ مال حلال بھی اس کے لیے حرام ہے اور مال حرام ہے، تو حرام در حرام۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 515، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   گناہ کے کام کی نوکری کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:’’ملازمت۔۔۔فعل ناجائز کی ہے، تو ناجائز ہے،قال تعالی﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِترجمہ:اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔(فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 522، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   دنیاوی فائدے کے لیے کفار کی کفریہ مراسم پر اعانت کرنے کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”مراسم کفر کی اعانت اور ان میں شرکت ممنوع وناجائز وگناہ اور مخالفت حکم الٰہ ہے۔قال اللہ تعالی﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِترجمہ:اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔حدیث میں ارشاد ہوا:”من سود مع قوم فھو منھم وفی لفظ من کثر سواد قوم فھو منھم“یعنی جو کسی قوم کی جماعت میں شریک ہو کر ان کا گروہ بڑھائے، وہ انہیں میں سے ہے ۔۔۔پھر اگر یہ باتیں شامت نفس اور طمع دنیا سے ہوں، تو صرف استحقاق جہنم ہے اور اگر کسی رسم کفر کے پسند ورضا کے ساتھ ہوں، تو کھلا کفر ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 186، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اگر کوئی کفار کے مذہبی تہواروں کو اچھا جان کر منائے ،تو کفر، ورنہ فسق و گناہ ہے، چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”اگر ان کے مذہبی تہوار کو اچھا جان کر منائے گا، اسلام سے خارج ہوجائے گا۔۔۔ورنہ فسق ومعصیت ضرور ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 188، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم