فتوی نمبر:WAT-2990
تاریخ اجراء: 17صفر المظفر1446 ھ/23اگست2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ہم روز صبح سویرے صدقہ نکالتے ہیں،کیا وہ رقم شجرکاری مہم میں جمع کروا سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
یاد رہے کہ صدقہ کی دو قسمیں ہیں:(1)صدقات واجبہ (2) صدقات نافلہ۔صدقات واجبہ سے مراد جس کاکرناشریعت نے اس پرلازم کردیاہو جیسے زکوۃ،صدقہ فطر،عشر،منت کی رقم وغیرہ۔ صدقہ واجبہ کو شجرکاری مہم میں جمع نہیں کروا سکتے کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی،جبکہ صدقات واجبہ کی ادائیگی کے لئے تملیکِ فقیر(کسی فقیر شرعی کومالک بنانا) ضروری ہے
اورصدقات نافلہ سے مراد جس صدقے کاکرنا،شرعالازم نہ ہو،بلکہ انسان خوداپنی مرضی سے محض ثواب حاصل کرنےیاثواب کے ساتھ ساتھ بلاؤں اورمصیبتوں سے بچنے ،کاروباروغیرہ میں برکت کے حصول کے لیے کرتاہے۔ اور نفلی صدقہ شجرکاری مہم میں جمع کروا سکتے ہیں کہ درخت لگانا بھی ثواب کا کام اور صدقہ جاریہ ہی ہے ، مرنے کے بعد بھی انسان کو اس کا ثواب ملتا رہے گا۔
صدقات واجبہ میں تملیک ضروری ہے ،چنانچہ بنایہ شرح ہدایہ میں ہے” الأصل أن الإباحة تصح في كفارة الظهار، والإفطار ۔۔۔دون الصدقات كالزكاة وصدقة الفطر والحلق عن الأذى والعشر، فإنه يشترط فيها التمليك“ترجمہ:قاعدہ یہ ہے کہ روزہ توڑنے و ظہار کے کفارے میں اباحت صحیح ہے،لیکن صدقات (واجبہ) مثلاً زکوٰۃ،صدقہ فطر،احرام میں اذیت کی وجہ سے حلق کروانے پر دم اور عشر کی ادائیگی میں اباحت صحیح نہیں،بلکہ ان میں تملیک شرط ہے۔(بنایہ شرح ھدایہ،ج 5،ص 556، دار الكتب العلمية ، بيروت)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” تصدق جس میں تملیکِ فقیر ضرور ہے، صدقات واجبہ مثل زکوۃ میں ہے،ہر صدقہ واجبہ میں بھی نہیں، جیسے کفارہ صیام وظہار ویمین کہ ان کے طعام میں تملیک فقیر کی حاجت نہیں اباحت بھی کافی ہے۔(فتاوی رضویہ،ج 20،ص 488،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
درخت لگانا ثواب کا کام اور صدقہ جاریہ ہے،چنانچہ مسند بزار کی حدیث پاک ہے” عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سبع يجري للعبد أجرهن من بعد موته، وهو في قبره: من علم علما، أو كرى نهرا، أو حفر بئرا، أو غرس نخلا، أو بنى مسجدا، أو ورث مصحفا، أو ترك ولدا يستغفر له بعد موته “ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”سات کام ایسے ہیں کہ جن کاا جر و ثواب بندے کو فوت ہوجانے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے جبکہ وہ قبر میں ہوتا ہے۔(وہ سات کام یہ ہیں):(1)جس نے علم سکھایا(2)یا نہر کھدوائی(3)یا کنواں کھودا(4)یا درخت لگایا(5)یا مسجد تعمیر کی(6)یا ورثاء میں قرآن مجید چھوڑا(7)یا ایسی اولاد چھوڑ کر گیا جو مرنے کے بعد اس کے لئے مغفرت کی دعا کرے۔(مسند البزار،رقم الحدیث 7289،ج 13،ص 483، مكتبة العلوم والحكم ، المدينة المنورة)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟