Sadqa Ki Niyat Se Alag Ki Gai Raqam Istemal Karna

صدقے کی نیت سے علیحدہ کی گئی رقم کو استعمال کرنا

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1938

تاریخ اجراء:12صفرالمظفر1445ھ/30اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میں ہر مہینے  نفلی صدقہ کے کچھ یورو (Euro)الگ رکھ دیتا ہوں۔پھرمیں بینک کے ذریعے اپنے اکاؤنٹ سے ڈائریکٹ یورو پاکستان بھیج دیتا ہوں اور جو  صدقہ کے لئے یورو ،گھر میں الگ سے رکھے ہوتے ہیں انکو خود استعمال کر لیتا ہوں۔ سنا ہے صدقہ کے وہی پیسے دینے ہوتے ہیں یعنی بینک نوٹ تبدیل نہیں کر سکتے۔تو کیا میراایسا کرنا شرعی لحاظ سے درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صرف صدقہ کی نیت سے رقم الگ کر کے رکھ دینے سے اسی رقم کو صدقہ کرنا لازم نہیں ہوتا بلکہ اس رقم کے بدلے کسی اور رقم کو بھی صدقہ کیا جاسکتا ہے، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔

   صدقہ کی رقم الگ کردینے سے وہ  رقم ملکیت سے خارج نہیں ہوتی، لہذا اس کے بدلے کسی اور رقم کو بھی صدقہ کیا جاسکتا ہے،جیسا کہ زکوۃ  کی رقم کو الگ  کرنے سے متعلق، در مختار مع رد المحتار میں ہے’’(ولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء)فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثا عنه ‘‘ترجمہ:مال کو (بنیتِ زکوۃ )الگ کردینے سے برئ الذمہ نہیں ہوگا بلکہ فقراء کو  مالک بنا کر    برئ الذمہ ہوگا ،لہذ اگر  زکوۃ کی رقم ضائع  ہوگئی توزکوۃ ساقط نہ ہوگی  اور اگر مرگیا  تو(چونکہ یہ رقم اس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوئی تھی لہذا) یہ اس کی طرف سے میراث بن جائے گی۔(درمختار مع رد المحتار،جلد3،کتاب الزکوۃ،صفحہ225،دار المعرفۃ ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم