Sachi Tauba Karne Ka Tarika Aur Tauba Sab Ke Samne Ki Jaye Ya Akele Mein

سچی توبہ کا طریقہ اور توبہ سب کے سامنے کی جائے یا اکیلے میں ؟

مجیب: ابو الحسن جمیل احمد غوری عطاری

فتوی نمبر:Web-931

تاریخ اجراء:05ذوالقعدۃ الحرام1444 ھ/25مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سچی توبہ کا کیا طریقہ ہے اور توبہ سب کے سامنے کرنا ضروری ہے یا اکیلے میں بھی کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   توبہ سچی تب ہوتی ہے جب اس کے ارکان پورے کیے جائیں۔توبہ کے ارکان  یہ ہیں:(1)اعترافِ جرم (یعنی  بندہ اپنے گناہ کا اللہ کی بارگاہ میں اعتراف کرے)۔(2)شرمندگی۔ (3)عزمِ ترک (یعنی وہ گناہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کا پکا ارادہ ہو)  اور (4)اگر گناہ قابلِ تلافی ہو تو اس کی تلافی(یعنی نقصان کا بدلہ)بھی لازم ہے۔مثلاً بے نمازی  کیلئے پچھلی نمازوں کی قضا بھی لازم ہے،روزے رہتے ہوں تو ان کی قضا بھی لازم ہے۔حقوق العباد تلف کیے ہوں تو ان کو بھی ادا کرنا ہو گا یا جن کا حق تھا ان سے معاف کروائے۔کسی کے ذمے سے دوسر ےکا حق اس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک صاحبِ حق معاف نہ کر دے۔

   امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:” سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی، نادِم وپریشان ہو کر‏فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گُناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دِل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائے۔مثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب، سرقہ، رشوت، رباسے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق کردے اور دل میں یہ نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا(فتاوی رضویہ، جلد21،صفحہ 121۔122، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اگر کسی نے چھپ کر گناہ کیا، تو اسے دوسرے پر ظاہر کرنا جائز نہیں بلکہ کسی کو بتائے بغیر توبہ کر لے اور اگر گناہ کسی کے سامنے کیا تھا، تو اسے اپنی توبہ کی اطلاع کرنی ہوگی۔

اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ کرنا ضروری ہے۔اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ اس کاحکم حدیثِ پاک میں دیاگیاہے اور  اعلانیہ گناہ دوہرا گناہ ہے،دوسرا یہ کہ اگروہ تنہائی میں توبہ کربھی لے،تب بھی لوگوں کی نظرمیں تووہ ویسا ہی رہےگاجیسااس نےکیا تھا اور لوگوں پر اس کےساتھ ویسا ہی سلوک کرنا لازم ہوگا جیسا اس صورت میں حکمِ شریعت ہے،یوں وہ توبہ کرنے کے باوجود لوگوں کی نگاہ میں گناہگار رہے گا۔لوگ اس کے بارے میں بدگمانی میں مبتلارہیں گے حالانکہ مسلمان  کے لیے اپنے آپ کو بدگمانی پر پیش کرنا جائز نہیں۔

   حدیث پاک میں ہے:سلطانِ دوجہان ، سرورِ ذیشان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت بنیاد ہے:’’جب تم کوئی گناہ کرو تو توبہ کر لو، السر بالسر والعلانیۃ بالعلانیۃ یعنی پوشیدہ گناہ کی توبہ پوشیدہ اورعَلانیہ گناہ کی توبہ عَلانیہ۔‘‘ (المعجم الکبیر، جلد20، صفحہ 159، حدیث 331 ، بیروت)

   حدیث میں ہے :’’اتقوا مواضع التھم‘‘تہمت کی  جگہوں سےبچو۔‘‘(کشف الخفاء،الحدیث88،جلد1،صفحہ 45،مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)

   شیخ طریقت امیر اہلسنت مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی فرماتے ہیں:’’میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن عَلانیہ گناہ کی عَلانیہ توبہ کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فتاوٰی رضویہ شریف جلد 21 صَفْحَہ146 پر فرماتے ہیں:سَو (100) کے سامنے گُناہ کیا اور ایک گوشہ میں دو (2)کے آگے اظہار ِ توبہ کر دیا تو اس کا اِشتِہارمِثلِ اِشتِہارِ گناہ نہ ہوا، اور وہ(عَلانیہ توبہ کے) فوائد کہ مطلوب تھے پُورے نہ ہوئے بلکہ حقیقۃً وہ مرض کہ باعثِ اعلان تھا توبہ میں کمیٔ اِعلان (یعنی ناقص اعلان) پر بھی وُہی باعِث ہے کہ گناہ تو دل کھول کر مجمعِ کثیر میں کرلیا اور(اب انہیں لوگوں کے سامنے)اپنی خطا پر اقرار کرتے عار(یعنی شرم) آتی ہے۔صَفْحَہ 144پر فرماتے ہیں : گناہِ عَلانیہ دوہرا گناہ ہے کہ اعلانِ گناہ (بھی) گناہ بلکہ اس گناہ سے بھی بدتر گناہ ہے۔ رسولُ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلَّم فرماتے ہیں:’’میری سب اُمّت عافیّت میں ہے سو ا اُن کے جوگناہ آشکار ا (یعنی علی الاعلان)کرتے ہیں۔‘‘ (بُخاری ج4 ص 118 حدیث6069)  نیز حدیث میں ہے:رسولُ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلَّم نے فرمایا:’’ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا عذاب بندوں سے دُور رہے گاجبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کو ڈھانپیں اور چھپائیں گے پھر جب عَلانیہ گناہ اور(کھلَّم کُھلّا) نافرمانیاں کریں گے تو وہ عذاب کے مُستحق اور سزا وار ہو جائینگے۔“(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 625-626،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم