Sanp Ko Marna Kaisa ?

سانپ کو مارنا کیسا ہے؟

مجیب: سید مسعود علی  عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-686

تاریخ اجراء: 27ربیع الثانی 1444  ھ/23 نومبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سانپ کو مارنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

  سانپ ایک موذی جانور ہے ، لہٰذاسانپ کومارنا، جائز  بلکہ مستحب ہے  اور حدیث پاک میں سانپ کو مارنے کی ترغیب موجود ہے۔ البتہ سفید رنگ کا سانپ جو  سیدھا چلتا ہے اور  چلنے میں بل نہیں کھاتا  اس سانپ کو بغیر تنبیہ کے مارنا منع ہے۔ اسی طرح مدینہ منورہ کے گھروں میں رہنے والے  سانپوں کو  مارنا بغیر تنبیہ کے منع کیا گیا ہے، سوائے دو قسم کے سانپوں کے جنہیں ذوالطیفتین اورابتر کہا جاتا ہے۔ ان دو قسم کے سانپوں کی تفصیل اور تنبیہ کے طریقے  نیچے فتاویٰ رضویہ شریف  کی عبارت میں موجود ہیں۔

  سانپ کو مارنے کے متعلق حدیثِ پاک میں  ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اقتلوا الحیات کلھن فمن خاف ثارھن فلیس منی“ یعنی تمام سانپوں کوقتل کرو ، جو اُن کے بدلہ لینے کے ڈرسےچھوڑ دے  وہ مجھ سے نہیں۔(ابو داؤد، جلد2، صفحہ 372، مطبوعہ لاہور)

  سانپ کو مارنے کے متعلق اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قتل سانپ کا مستحب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےاس کے قتل کا حکم کیا ہے یہاں تک کہ اس کے قتل کی حرم میں اور محرم کو بھی اجازت ہے اور جو خوف سے چھوڑ دے ، اس کے لیے لفظ"لیس منی"حدیث میں وارد۔“

  پھر بغیر تنبیہ کے جن سانپوں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان کرتے ہوئے  فرماتےہیں:”قتل اسی سانپ کاکہ سپیدرنگ ہے اور سیدھاچلتاہے یعنی چلنے میں بل نہیں کھاتا قبلِ انداز وتحذیرکے ممنوع ہے، اور اسی طرح وہ سانپ جومدینہ کے گھروں میں رہتے ہیں بے انذار وتحذیرکے نہ قتل کئے جائیں مگرذوالطیفتین کہ  اس کی پیٹھ پر دوخط سپید ہوتے ہیں اورابتر کہ ایک قسم ہے سانپ کی کبود رنگ کوتاہ دم، اور ان دونوں قسم کے سانپوں کاخاصہ ہے کہ جس کی آنکھ پر ان کی نگاہ پڑجائے اندھاہوجائے، زنِ حاملہ اگرانہیں دیکھ لے حمل ساقط ہو کہ اس طرح کے سانپ اگرمدینہ طیبہ کے گھروں میں بھی رہتے ہوں تو ان کامارنا بے انذارکے جائزہے۔۔۔ بالجملہ قتل سانپ کامستحب اورسپید اور ساکن بیوت مدینہ کا سوا ذوالطیفتین اورابتر کے بے انذاروتحذیر کے ممنوع ہے مگرطحاوی کے نزدیک بے انذار میں بھی کچھ حرج نہیں او رانذار اولیٰ ہے۔

  سانپ کو مارنے سے پہلے تنبیہ کے طریقے بیان کرتے ہوئے  لکھتے ہیں: ” طریقے انذاروتحذیر کے مختلف ہیں، ایک یہ کہ یوں کہاجائے میں تم کو قسم دلاتاہوں اس عہد کی جو تم سے سلیمان بن داؤدعلیہما السلام نے لیاکہ ہمیں ایذامت دو اور ہمارے سامنے ظاہر مت ہو۔ دوسرے یہ کہ اس طرح کہاجائے ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں بوسیلہ عہدنوح و عہد سلیمان ابن داؤدعلیہم السلام کے کہ ہمیں ایذامت دے،تیسرے یہ کہ میں تمہیں قسم دلاتاہوں اس عہد کی جوتم سے نوح علیہ السلام نے لیا میں تمہیں قسم دلاتاہوں اس عہد کی جو تم سے سلیمان علیہ السلام نے لیا کہ ایذامت دو، چوتھے یہ کہ لوٹ جاخداکے حکم سے،پانچویں یہ کہ مسلمان کی راہ چھوڑدے۔(فتاوی رضویہ ، جلد24، صفحہ645۔652، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور، ملخصاً)

نوٹ: اس بارے میں مزید تفصیل اور دلائل کے لئے فتاویٰ رضویہ، جلد 24، صفحہ 645 تا652 کا مطالعہ فرمائیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم