Reshmi Kapre Ka Hukum Aur Mard Ka Stone Wash, Silk Waghaira Pehnna Kaisa ?

ریشمی کپڑے کا حکم اورمرد کا اسٹون واش، سلک وغیرہ پہننا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: 02

تاریخ اجراء: 22 شوال المکرم  1433ھ/10ستمبر 2012ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیاریشم کاکپڑامردکے لئے پہنناجائزہے ؟اورآجکل مارکیٹ میں جومختلف قسم کے کپڑے آئے ہوئے ہیں جوبظاہرریشم کے لگتے ہیں جیسے جاپانی کپڑا،اسٹون واش اور سلک وغیرہ کیاان کاپہنناجائزہے یاناجائز؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مردکے لئے ریشمی کپڑاپہننا،ناجائزوحرام ہے،احادیث میں ریشمی کپڑاپہننے والے مردکے بارے میں بہت سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔جیساکہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’لا تلبسوا الحریر فانہ من لبسہ فی الدنیا لم یلبسہ فی الآخرۃ ‘‘ترجمہ: ریشم نہ پہنو کیونکہ جو اسے دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔(صحیح بخاری،ج02،ص967، مطبوعہ  لاھور)

   ایک اورمقام پرنبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’انما یلبس الحریر من لاخلاق لہ فی الآخرۃ‘‘ترجمہ:جو ریشم پہنے گا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔(صحیح بخاری،ج06،ص867،مطبوعہ لاھور )

   علامہ تمرتاشی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ’’تنویر الابصار‘‘ میں ارشادفرماتے ہیں:’’یحرم لبس الحریرو لو بحائل علی المذھب علی الرجل لا المرأۃ‘‘ترجمہ:مرد کو ریشم پہننا حرام ہے اگرچہ ریشم اور اس کے بدن کے درمیان کوئی چیز حائل ہو ،صحیح مذہب کے مطابق اور عورت پر ریشم حرام نہیں۔(تنویر الابصار متن درمختار مع الشامی،ج09، ص 506،مطبوعہ  ملتان)

   البتہ اگرکپڑے،جبے یاعمامہ وغیرہ پرریشم کے حاشیہ یابیل کی چوڑائی چارانگل سے کم ہوتواس کااستعمال کرنامردکے لئے جائزہے۔جیساکہ صحیح مسلم میں ہے کہ ’’أن عمررضی اللہ تعالی عنہ خطب الناس بالجابیۃ فقال نھی نبی اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عن لبس الحریر الا موضع اصبعین اوثلاث اواربع واشار بکفہ ‘‘ ترجمہ:بیشک حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے مقام جابیہ میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایاکہ اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے منع فرمایاسوائے دویاتین یاچارانگل کے مقدارکے اوراپنی ہتھیلی سے اشارہ کیا۔(صحیح مسلم،باب استعمال اناء الذھب،ج02،ص191،مطبوعہ لاھور )

   علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’یحرم لبس الحریر علی الرجل الا قدر اربع اصابع کاعلام الثوب ‘‘ترجمہ:مرد کو ریشم پہننا حرام ہے سوائے چار انگلیوں کی مقدار ، جیسے کپڑے میں نقوش ۔ (درمختار مع ردالمحتار، ج09،ص507، مطبوعہ ملتان)

   علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ اس کے تحت فرماتے ہیں،’’و مثلہ فیما یظھر طرۃ الطربوش ای القلنسوۃ ما لم تزد علی عرض اربع اصابع‘‘ترجمہ:اور اسی کے مثل حکم ٹوپی کے کناروں میں ظاہر ہوتا ہے جب تک چار انگلیوں کے عرض سے زائد نہ ہو۔(ردالمحتار مع الدرالمختار ،ج09،ص507،مطبوعہ  ملتان)

   تبیین الحقائق میں ہے:’’حرم  لبس  الحریر    للرجل    لاللمرأۃ    الا   قدر   أربع      أصابع‘‘ترجمہ:ریشم پہننا مرد کے لئے حرام ہے نہ کہ عورت کے لئے ،سوائے چارانگل کی مقدارکے۔(تبیین الحقائق،فصل فی اللبس،ج06، ص340، مطبوعہ بیروت)

   اوراگرتھوڑاتھوڑاکرکے متفرق طورپرکپڑے وغیرہ پرکام ہواگرچہ چارانگل سے زائدہوتب بھی جائزہے۔جیساکہ علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ’’وظاھر المذھب عدم جمع المتفرق و لو فی عمامۃ کما بسط فی القنیۃ ‘‘ترجمہ:اور ظاہر مذہب یہ ہے کہ متفرق کو جمع نہیں کیا جائے گا اگرچہ عمامہ میں ہو جیسا کہ قنیہ میں مذکورہے۔ (درمختار مع ردالمحتار، ج09، ص507، مطبوعہ ملتان)

   اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’(ریشم)چارانگل سے زائدناجائزاوراس کااستعمال ممنوع ہے اورمتفرقاریشم کاکام ہوخواہ سونے چاندی کاجمع نہ کیاجائے گاجب تک مثل مغرق کے نظرنہ آتاہو۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ص175، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

   دوسرے مقام پراعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:’’یوہیں چاندی سونے کے کام کے دوشالے ،چادر کے آنچلوں ،عمامے کے پلوؤں ،انگرکھے ،کرتے ،صدری ،مرزائی وغیرہا کی آستینوں ،دامنوں ،چاکوں ،پردوں ، تولیوں ،جیبوں پر ہو ، گریبان کا کنٹھا ،شانوں پشت کے پان ترنج ، ٹوپی کا طرہ ،مانگ ،گوٹ پر کام ،جوتے کا کنٹھا گپھا ،کسی چیز میں کہیں کیسی ہی متفرق بوٹیاں یہ سب جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی تنہا چار انگل کے عرض سے زائد نہ ہو اگرچہ متفرق کام ملا کر دیکھیں تو چار انگل سے بڑھ جائے ، اس کا کچھ ڈر نہیں کہ یہ بھی تابع قلیل ہے اور اگر کوئی بیل بوٹا تنہا چار انگل عرض سے زیادہ ہو تو ناجائز کہ اگرچہ تابع ہے مگر قلیل نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ص133،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   مذکورہ بالااحادیث اورجزئیات اس حقیقی ریشم کی حرمت کے بارے میں ہیں جوکیڑے کے لعاب سے پیداہوتاہے اورانتہائی مضبوط ونرم ہوتاہے۔جیساکہ اردو لغت میں اس کی تعریف کچھ یوں بیان کی گئی ہے ۔’’ریشم:ایک کیڑے کے منہ کے لعاب کا تار جو نہایت مضبوط ،نرم اور چکنا ہوتا ہے۔ یہ عموماً ریشمی کپڑا بنانے کے کام آتا ہے۔‘‘                   (اردو لغت،ج10 ،ص987،مطبوعہ اردو لغت بورڈ، کراچی)

   اور ریشم کے کیڑے کی تعریف کچھ یوں ہے،’’ریشم کا کیڑا: چھوٹا کیڑا جو شہتوت کے درخت پر پالا جاتا ہے اس کے لعاب دہن سے ریشم کا تار حاصل ہوتا ہے۔‘‘(اردو لغت،ج10،ص987،اردو لغت بورڈ ،کراچی)

   اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’ شرعاً حریر(ریشم) اس کپڑے کو کہتے ہیں جو کیڑے کے لعاب سے بنایا جائے۔‘‘                              (فتاوی رضویہ،ج22،ص181،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ریشم کے کپڑے پہننامردوں پرحرام ہے،حدیث میں ارشادہوا: ’’محرم علی ذکورامتی‘‘ریشم کیڑے سے پیداہوتاہے۔‘‘(فتاوی امجدیہ،ج04،ص64،مطبوعہ دارالعلوم امجدیہ)

   لہذا حقیقتاً ریشم وہی ہے جو ریشم کے کیڑے کے لعاب سے پیدا ہوتا ہے،اور اسی کی حرمت منصوص ہے۔ اس کے علاوہ وہ کپڑے جوبظاہرریشم کے محسوس ہوتے ہیں،جیسے اسٹون واش،سلک وغیرہ،ان کے بارے میں باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ ان میں اصلی ریشم( یعنی جومخصوص کیڑے کے لعاب سے بنتاہے)نہیں ہوتابلکہ عموماان میں پولیسٹریانقلی ریشم ہوتاہے یاریڈیم کی ملاوٹ کرکے شائنگ اورچمک پیداکی جاتی ہے جس سے کپڑاریشمی معلوم ہوتاہے ۔اگرفی الواقع ایساہی ہے توایسے کپڑوں کواستعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ شرعاریشم وہی حرام ہے جواصلی ہو۔جیساکہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویہ‘‘میں ارشادفرماتے ہیں:’’سلک کو بعض نے کہاکہ انگریزی میں ریشم کا نام ہے ،اگر ایسا ہو بھی تو اعتبار حقیقت کا ہے نہ کہ مجرد نام کا ،بربنائے تشبیہ بھی ہو سکتا ہے جیسے ریگ ماہی ،مچھلی نہیں ،جرمن سلور ، چاندی نہیں ۔جو کپڑے رام بانس یا کسی چھال وغیرہ چیز غیر ریشم کے ہوں اگرچہ صناعی سے ان کو کتنا ہی نرم اور چمکیلا کیا ہو مرد کو حلال ہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج22،ص194،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   مذکورہ بالاعبارات سے معلوم ہواکہ ایساکپڑاجوبظاہرریشم معلوم ہومگردرحقیقت ریشم نہ ہو، تو اس کااستعمال کرنا، جائزہے۔البتہ ایساکپڑاپہننے سے لوگ بدگمانی میں مبتلاہوں گے اس لئے بچنابہترہے ، خصوصاوہ حضرات جوعوام الناس کے درمیان کسی دینی منصب پرفائز ہوں جیسے علماء کرام اورمشائخ عظام ،انہیں زیادہ احتیاط چاہیے۔جیساکہ صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ریشم کے کپڑے مردکے لئے حرام ہیں،بدن اورکپڑوں کے درمیان کوئی دوسرا کپڑاحائل ہویانہ ہو،دونوں صوتوں میں حرام ہیں اورجنگ کے موقع پربھی نرے ریشم کے کپڑے حرام ہیں…سن اوررام بانس کے کپڑے جوبظاہربالکل ریشم معلوم ہوتے ہوں،ان کاپہننااگرچہ ریشم کا پہننانہیں مگراس سے بچناچاہیے۔ خصوصاعلما کو کہ لوگوں کوبدظنی کاموقع ملے گایادوسروں کوریشم پہننے کاذریعہ بنے گا۔ ‘‘(بھارشریعت، ج03،ص410، 411،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم