Qabar Par Phool Aur Sabza Ugane Ka Hukum?

قبر پر پھول اور سبزہ اُگانے کا حکم

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2601

تاریخ اجراء:       04صفر المظفر1444ھ/01ستمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قبر پر پھول اور سبزہ لگانے کے لیے بیج  وغیرہ قبر پر ڈال سکتے ہیں؟ بیج ڈالنے سے قبر کو کوئی نقصان نہیں ہوتا اور نہ ہی قبر کے اوپر مٹی کھودی جاتی ہے۔لہذا شرعی رہنمائی فرما دیں کہ ایسا کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قبر پر جو گھاس یاپھول لگائے گئےہیں،ان کی جڑ سے قبر یا میت کو کوئی نقصان وغیرہ نہیں پہنچتا،تو ایسےپھول یا گھاس لگانا ،جائز ہے ،کیونکہ قبروں پر اگنے والے پودےجب تک تر رہتے ہیں ،اللہ عزوجل کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، جس سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس عمل کی وجہ سے اللہ پاک سے امید ہے کہ اگر  میت کو عذاب ہو رہا ہو، تو اس  عذاب میں کمی فرمائے گا۔ان پودوں کی تسبیح سے اللہ پاک  کی رحمت کا نزول ہوتا ہے، اسی لیے بلاوجہ شرعی قبرستان سے تر گھاس کو اکھاڑنا،کاٹنا ممنوع و مکروہ ہے،  چونکہ قبروں پرتر  پودوں کا ہونا  شریعت مطہرہ کو مطلوب ومستحسن ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں قبر کو نقصان پہنچائے بغیر قبروں پر پھول  یا سبزہ لگانے کے لیے بیج ڈال سکتے ہیں۔

   قبروں پرسبزے  کا ہونا شریعت مطہرہ کو مطلوب و پسند ہے،جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:عن ابن عباس قال :مر النبی صلی اللہ علیہ وسلم  بحائط من حیطان المدینۃ او مکۃ فسمع صوت انسانین یعذبان فی قبورھما فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعذبان و ما یعذبان فی کبیرثم قال بلی کان  احدھا لا یستتر من بولہ و کان الآخر یمشی بالنمیمۃ ثم دعا بجریدۃفکسرھا کسرتین فوضع علی کل قبر منھما کسرۃ فقیل لہ یارسول اللہ لم فعلت ھذا؟قال لعلہ یخفف عنھما  ما لم ییبساترجمہ:روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرماتے ہیں کہ نبی صلی ا ﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ یا مکہ مکرمہ کے باغات  میں سے ایک باغ کے پاس سے گزرے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں عذاب دیا جارہا ہے اور کسی بڑےسبب سے عذاب نہیں دیا جا رہا،پھر فرمایا : ان میں سے ایک  آدمی ،تو اپنے پیشاب  کے چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتا تھااور دوسرا چغل خوری کرتا تھا، پھر کھجور کی تر شاخ منگوا کر دو ٹکڑے کیے  اور ہر قبر پر ایک ٹکڑا رکھا، صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم!آپ نے ایسا کس لیے کیا؟فرمایا  جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی ، ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔(صحیح البخاری، حدیث 216، صفحہ 38، مطبوعہ مکۃالمکرمہ)

   ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”استحب العلماء قراءة القرآن عند القبر لهذا الحديث اذ تلاوة القرآن اولى بالتخفيف من تسبيح الجريد، وقد ذكر البخاری ان بريدة بن الحصيب الصحابی اوصى ان يجعل فی قبره جريدتان فكأنه تبرك بفعل مثل رسول اللہ صلى اللہ تعالى عليه وسلم “ترجمہ:علمائے کرام نے قبر کے پاس قرآن شریف پڑھنا، مستحب قرار دیا ہے، کیونکہ قرآن شریف کی تلاوت ، عذاب کو کم کرنے میں تر شاخوں کے تسبیح کرنے سے زیادہ اولی ہےاور بخاری نے ذکر کیا کہ بریدہ بن حصیب صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی کہ ان کی قبرپر کھجور کی دو شاخیں لگا دی جائیں، گویا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے برکت لینا چاہی ۔ ( مرقاۃ المفاتیح، جلد1، صفحہ53، مطبوعہ کوئٹہ)

   اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے شیخ الحدیث  غلام رسول رضوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبروں پر سبزہ لگانا، جائز ہے، کیونکہ ہر تر شے تسبیح کرتی ہے۔اس لیے بریدہ اسلمی نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر کھجور کی دو سبز شاخیں رکھی جائیں۔اس سے تخفیف ِ عذاب ضرور ہے۔(تفھیم البخاری، جلد 1، صفحہ 366، مطبوعہ تفھیم البخاری ،پبلیکیشنز)

   حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مراۃ المناجیح میں فرماتے ہیں:”سبزہ کی تسبیح کی برکت سے عذاب قبر میں تخفیف ہوتی ہے۔ (مرآۃ المناجیح، جلد3، صفحہ377، مطبوعہ قادری پبلشرز)

   قبرستان میں تر گھاس کی وجہ سے میت کو انسیت اور میت کا عذاب دور ہوتا ہے، جیسا کہ فتاوی بزازیہ میں ہے: قطع الحشیش من المقابر یکرہ لانہ یسبح و یندفع بہ العذاب من المیت او یستانس بہ المیت“ترجمہ:قبرستان سے تر گھاس کاٹنا مکروہ ہے، کیونکہ وہ تر گھاس اللہ پاک کی تسبیح بیان کرتی ہے اور اس کی وجہ سے  میت کا عذاب دور ہوتا ہے  اور میت کو اُنسیت حاصل ہوتی ہے۔ (فتاوی بزازیہ، جلد2، صفحہ 477، مطبوعہ کراچی)

قبر پر تر گھاس کو کاٹنا، مکروہ ہے اور قبر پر تر گھاس لگے رہنے  سے میت کو انسیت حاصل  ہوتی ہے، جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :” يكره أيضا قطع النبات الرطب والحشيش من المقبرة دون اليابس كما في البحر والدرر وشرح المنية وعللہ فی الامداد بانہ مادام رطبا یسبح اللہ تعالی فیونس المیت و تنزل بذکرہ الرحمۃ “ترجمہ: ترگھاس کا مقبرے سے کاٹنا بھی مکروہ ہے، خشک گھاس کا نہیں، جیسا کہ بحر، درراور شرح منیہ میں ہے،امداد میں اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ جب تک یہ پودا تر رہتا ہے ، اللہ پاک کا ذکر کرتا ہے ، جس سے میت کو انسیت ہوتی ہےاور اس کے ذکر سے رحمت کا نزول ہوتا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد 3، صفحۃ 184، مطبوعہ کوئٹہ)

   قبر پر شاخ رکھنے کے  متعلق مختلف احادیث کریمہ بیان کرنے کے بعد ، فتاوی صدر الافاضل میں سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اب ان چاروں حدیثوں سے ثابت ہو گیا کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے سبز شاخیں قبروں پر لگائیں اور ان سے تخفیف عذاب کی امید دلائی، تو بے شک تر شاخوں کا قبروں پر لگانا ، کم از کم  مستحب ثابت ہوا۔“(فتاوی صدر الافاضل، صفحہ301، مطبوعہ  مکتبہ اعلی حضرت، لاھور)

   فتاوی ملک العلماء میں ہے:”علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ بعض علماء نے قبر پر قرآن شریف پڑھنے کے جواز پر شاخ خرما والی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاخ خرما کو دو نصف کیا اور ایک نصف ایک قبر پر اور دوسرا نصف دوسرے پر نصب کیا اور فرمایا کہ جب تک یہ دونوں تر رہیں،  اللہ پاک ان دونوں مردوں پر عذاب میں تخفیف فرمائےگا ۔ اس حدیث کوشیخین  رحمۃ اللہ علیہما نے روایت کیا اور کہا کہ اس حدیث سے قبر پر درخت کا نصب کرنااور قرآن شریف پڑھنا، مستفاد ہوتا ہے کہ جب شاخ درخت کی وجہ سے تخفیف ِعذاب ہو، تو قرآن مجید کے مفید ہونے کا کیا کہنا۔۔۔نباتات جس وقت تک سبز رہتی ہیں، خدا کی تسبیح کرتی ہیں، اور اس سے میت کو انس حاصل ہوتا ہے، اس لیے قبرستان سے سبز گھانسوں کا اکھاڑنا ، کاٹنا ممنوع و مکروہ ہے۔“(فتاوی ملک العلماء، صفحہ375، 377، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم