Professional Bhikhari Ka Mangna Aur Baddua Ke Dar Se Ise Dena Kaisa ?

پیشہ ور بھکاری کا مانگنا ، بد دعا سے بچنے کے لیے ایسوں کو دینا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-6886

تاریخ اجراء:      13جمادی الاخری1443 / ھ17جنوری2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل روڈوں پہ بھیک مانگنے والے افراد کی کثرت ہے،بظاہر  ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں،لیکن مسلسل مانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،ان میں سے بعض کی عادت یہ ہے کہ اگر انہیں کچھ نہ دیا جائے،تو  کہتے ہیں کہ’’اتنی رقم لازمی دینی پڑے گی،ورنہ ہم تمہیں بددعا دیں گے ‘‘جس کی وجہ سے  لوگ ڈر جاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ رقم انہیں دے دیتے ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کے افراد کامانگنا اور نہ دینے پر بددعا کی دھمکی دینا کیسا؟نیز ان کی بددعا سے بچنے کے لیے ان کو کچھ رقم دے سکتے ہیں یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کس شخص کے لیے سوال حلال ہے اور کس کے لیے نہیں؟اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ جس کے پاس اپنی ضروریاتِ شرعیہ کو پورا کرنے کی مقدار مال موجود ہو یا اتنا مال تو نہ ہو،لیکن کما کر ضروریات پوری  کرسکتا ہو،تو ایسے شخص کا سوال کرنا حرام   ہے،مثلاً: جس کے پاس ایک دن کا کھانا موجود ہے یا کما کر کھا سکتا ہے،تو ایسے شخص کا کھانے کے لیے سوال کرنا،جائز نہیں۔یونہی بدن چھپانے کے لیے کپڑے کا بندوبست کرسکتا ہے،تو اس کے لیے کپڑے کا سوال کرنا،جائز نہیں وعلی ھذا القیاساور دینے والے کو اس کی یہ کیفیت معلوم ہو،تو اسے دینا بھی حرام ہے،کیونکہ  یہ گناہ پر تعاون ہے اور گناہ پر تعاون بھی حرام ہے۔البتہ اگر کسی کے پاس ضروریات کی مقدار مال موجود نہیں،وہ اتنا کمابھی نہیں سکتا اور سوال کے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہیں،تو ایسے شخص کا بقدرِ حاجت سوال کرنا ،جائز ہے اور اسے دینا،نہ صرف جائز،بلکہ  باعثِ ثواب بھی ہے۔   

   آج کل سڑک،بازار،چوک،فوڈ اسٹریٹ، ٹریفک سگنل،بس اسٹاپ ،ٹرین اورمختلف گاڑیوں وغیرہ میں ،یونہی  مساجد اورمزارات کے باہر جو افراد بھیک مانگتے ہوئے دکھائی دیتے  ہیں،وہ عموماً سوال کے حقدار نہیں،بلکہ پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں،مال جمع کرنا اور اسے بڑھانا ان کا مقصد ہوتا ہے،حتیٰ  کہ  گھر کے چھوٹے بڑے سب افراد مانگتے ہیں،ایک دن میں ہزاروں روپے جمع کر لیتے ہیں اور ویسے بھی لاکھوں لاکھ کی مالیت کے مالک ہوتے ہیں،بلکہ مختلف رپورٹس کے مطابق اب تو بڑے شہروں میں  گدا گری کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے،اس میں باقاعدہ ٹھیکےداری کا نظام بھی متعارف ہوچکا ہے،جس میں مخصوص بھکاریوں کو مختلف جگہوں پر مانگنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے اور دوسرے بھکاریوں کو اس حدود میں داخل ہونے سے منع کر دیا جاتا ہے۔الغرض یہ افراد ضروریاتِ شرعیہ کو پورا کرنے کے لیے نہیں مانگتے،بلکہ محنت و مزدوری کرنے کی بنسبت مانگنے کو کمائی کا آسان ترین ذریعہ سمجھتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ مسلسل  مانگتے ہی رہتے ہیں ۔

   پھر جب مانگنا ان کا پیشہ ہے،تو اس کے لیے یہ ایسا طریقہ اپناتے ہیں،جس کی وجہ سے انہیں زیادہ سے زیادہ رقم ملے،مثلاً: بعض اللہ کا واسطہ دیتے ہیں،حالانکہ حدیثِ پاک میں ایسے شخص کو ملعون کہا گیا ہے۔بعض چھوٹے بچوں سے منگواتے ہیں،جوپیسے لینے کے لیے پیچھے ہی پڑجاتے ہیں، حالانکہ جس طرح خود بلا ضرورتِ شرعی بھیک مانگناحرام ہے،بچوں سے منگوانا بھی حرام ہے۔بعض جھوٹ بول کر بیماری،معذوری یا کوئی اور مجبوری ،مثلاً :جیب کٹ جانا،پیسے چوری ہوجانایا کرایہ ختم ہوجانا وغیرہ ظاہر کرتے ہیں،حالانکہ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے۔بعض بددعا ئیں دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں،حالانکہ بلا اجازتِ شرعی کسی مسلمان کو اس طرح  دھمکی دینا یا اس کے لیے بددعا کرنا،جائز نہیں۔یاد رکھیے!جو افراد بلا ضرورتِ شرعی سوال کرتے ہیں،ان کے بارے میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گے کہ ان کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا اور فرمایا:جو اپنا مال بڑھانے کے لیے مانگتا ہے، وہ اپنے لیے جہنم کے انگارے اکٹھے کرتا ہے،اب اس کی مرضی کہ کم جمع کرے یا زیادہ ۔

      ایسے افراد کا مانگنابلاشبہ حرام  ہے اور ان کے پیشہ ور ہونے کا علم ہونے کے باوجود انہیں دینا ضرور گناہ پر تعاون ہونے کی وجہ سے حرام اور گناہ ہے،اگرچہ یہ اللہ کا واسطہ یا بد دعا دینے کی دھمکی دیتے رہیں۔ ان کے بجائے اپنے قرب و جوار میں بسنے والے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں  میں سے اصل مستحق افراد کی مدد کی جائے ،کہ انہیں دینا بہت بڑے  ثواب کا باعث ہے۔

   اور جہاں تک ان  کی بددعاقبول ہونے کا معاملہ ہے،تو وہ ان شاء اللہ قبول نہیں ہوگی۔علماء نے احادیث کی روشنی میں واضح طور پر فرما دیا کہ اگر کسی نے دوسرے پر کوئی ظلم نہیں کیا،تو اس کے لیے کی جانے والی بددعا اللہ پاک قبول نہیں فرماتا،بلکہ خود  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو لوگوں کی ہلاکت چاہتا ہے،وہ خود سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔

   غیر مستحق شخص کے مانگنے اور اسے دینے کی ممانعت پر مشتمل آیت اور احادیث:

      گناہ پرمدد کرنے کی ممانعت کے بارے میں اللہ پاک  ارشاد فرماتاہے:﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَان﴾ترجمہ کنز العرفان:’’اورگناہ اورزیادتی پرباہم مددنہ کرو۔‘‘ (پارہ 6،سورۃ  المائدہ،آیت 2)

   بلاضرورتِ شرعی سوال کرنے والے کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ما یزال الرجل یسال الناس حتی یاتی یوم القیامۃ لیس فی وجھہ مزعۃ لحم‘‘ترجمہ:آدمی ہمیشہ لوگوں سے سوال کرتا رہے گا،یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہیں ہوگا۔            (صحیح البخاری،کتاب الزکوٰۃ،باب من سأل الناس تکثرا،جلد1،صفحہ199،مطبوعہ کراچی)

   اسی بارے میں مزید حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من سأل الناس اموالھم تکثرا،فانما یسأل جمر جھنم، فلیستقل منہ او لیکثر‘‘ترجمہ:جو اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے ان کے مال کا سوال کرے،تو وہ جہنم کے انگارے کا سوال کرتا ہے،اب چاہے، تو کم مانگے یا زیادہ۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الزکوٰۃ،باب من سأل عن ظھر غنی، صفحہ132،مطبوعہ کراچی)

   کسے سوال حلال ہے اور کسے نہیں اور ہر دو طرح کے افراد کو دینے پر فقہی جزئیات:

   غیرمستحق شخص کے سوال کرنے اور اسے دینے کے بارےمیں تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:’’ولا یحل ان یسال شیئا من القوت من لہ قوت یومہ بالفعل او بالقوۃکالصحیح المکتسب ویاثم معطیہ ان علم بحالہ لاعانتہ علی المحرم ولو سال للکسوۃ او لاشتغالہ عن الکسب بالجھاد او طلب العلم جاز لومحتاجا‘‘ترجمہ:جس کے پاس بالفعل آج کے دن کا کھانا ہےیا بالقُوّہ جیسے وہ تندرست اور کمانے پر قادر ہے،تو اسے کھانے کےلیے سوال حلال نہیں اور ایسے شخص کو دینے والا گنہگار ہو گا،اگر اسے اس کی کیفیت کا علم ہو، کیونکہ یہ حرام پر معاونت ہے اور اگر (کھانے کا بندوبست ہے،مگر کپڑوں کا نہیں اور)وہ کپڑوں کے لیے سوال کرتاہےیا جہاد یا علمِ دین حاصل کرنے کے سبب کمائی سے عاجز ہونے کی وجہ سے سوال کرتا ہے،تو جائز ہے،جبکہ  محتاج ہو۔(تنویر الابصارمع درمختار ،جلد2،صفحہ354تا355،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

   اسی بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’جو اپنی ضروریات شرعیہ کے لائق مال رکھتا ہے یا اس کے کسب پر قادر ہے،اُسے سوال حرام ہے اور جو اس مال سے آگاہ ہو،اُسے دینا حرام اور لینے اور دینے والا دونوں گنہگار و مبتلائے آثام۔صحاح میں ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’لاتحل الصدقۃ لغنی ولذی مرۃ سوی‘‘ترجمہ:کسی مالدار اور طاقتورتندرست شخص کے لیے صدقہ حلال نہیں۔‘‘       (فتاوی رضویہ،جلد 10،صفحہ307،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مستحق شخص کے سوال کرنے اور اسے دینے کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’وہ عاجز، نا تواں کہ نہ مال رکھتے ہیں، نہ کسب پر قدرت یا جتنے کی حاجت ہے، اتنا کمانے پر قادر نہیں، انہیں بقدرِ حاجت سوال حلال اور اس سے جو کچھ ملے، ان کے لیے طیّب اور یہ عمدہ مصارفِ زکوٰۃ سے ہیں اور انہیں دینا باعثِ اجرِ عظیم، یہی ہیں وُہ،جنہیں جِھڑکنا حرام ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد 10،صفحہ254،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   پیشہ ور بھکاریوں کو دینے کے متعلق اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’بے ضرورتِ شرعی سوال کرنا حرام ہےاور جن لوگوں نے باوجودِ قدرتِ کسب(یعنی کمانے پر قادر ہونے کے باوجود) بلاضرورت سوال کرنا اپناپیشہ کرلیا ،وہ جو کچھ اس سے جمع کرتے ہیں، سب ناپاک وخبیث ہےاور ان کا یہ حال جان کر اس کے سوال پر کچھ دینا داخل ِ ثواب نہیں، بلکہ ناجائز وگناہ اور گناہ میں مدد کرنا ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ303،مطبوعہ  رضا فاؤ نڈیشن ،لاھور)

   اسی بارے میں صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد  فرماتے ہیں :’’آج کل ایک عام بلا یہ پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اوروں کو کھلائیں،مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے، کون محنت کرے، مصیبت جھیلے،بے مشقت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے۔ ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بھتیرے ایسے ہیں کہ مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ و عار خیال کرتے اور بھیک مانگنا کہ حقیقۃً ایسوں کے لیے بے عزتی و بے غیرتی ہے، مایہ عزت جانتے ہیں اور بہتوں نے تو بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنا رکھا ہے، گھر میں ہزاروں روپے ہیں، سود کا لین دین کرتے، زراعت وغیرہ کرتے ہیں، مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے، اُن سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے،واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں؟ حالانکہ ایسوں کو سوال حرام ہے اور جسے اُن کی حالت معلوم ہو، اُسے جائز نہیں کہ ان کو دے۔‘‘ (بھار شریعت ،جلد1 ،صفحہ941،مطبوعہ  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   بلا اجازتِ شرعی بد دعا دینے کی ممانعت اور اس کے قبول نہ ہونے پر جزئیات:

   کون سی دعا قبول نہیں ہوتی؟اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’لایزال یستجاب للعبد ما لم يدع باثم او قطيعة رحم‘‘ترجمہ:ہمیشہ بندے کی دعا قبول ہوتی ہے،جبکہ وہ گناہ یا رشتہ کاٹنے کی دعا نہ کرے۔(الصحیح لمسلم،کتاب الذکر والدعاء،باب بیان انہ یستجاب للداعی ما لم یعجل،جلد2،صفحہ352،مطبوعہ کراچی)

   اس حدیثِ پاک کے تحت ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ ومنه الدعاء على من لم يظلمه مطلقا ‘‘ترجمہ:(جو دعائیں قبول نہیں ہوتیں)ان میں سے ایک اس شخص کے لیے بد دعا کرنا ہے کہ جس نے اس پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ (مرقاۃ المفاتیح ،جلد4،صفحہ1525،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   جو دوسروں کی ہلاکت چاہتا ہے،اس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اذا سمعت الرجل یقول:ھلک الناس،فھو اھلکھم‘‘ترجمہ:جب تم کسی مرد کو یہ کہتے ہوئے  سنو کہ لوگ ہلاک ہوں ،تو وہ خود سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔(مسند احمد بن حنبل،جلد16،صفحہ409،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

   بلا وجہ شرعی دوسرے کو دھمکی یا بد دعا دینے والے شخص کے بارے میں مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’اگر واقعی عمرو نے بلا وجہ شرعی مسلمانوں کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے اور صرف نفسانی غرض سے کسی سنی مسلمان کو برباد کرنے کی دھمکی دیتا ہے،تو وہ ظالم جفا کار ہے،اس پر توبہ لازم ہے،ذاتی جھگڑے کی وجہ سے کسی مسلمان کے لیے بد دعا کرنا، جائز نہیں ۔‘‘      (فتاوی فیض الرسول،جلد2،صفحہ554،مطبوعہ شبیر برادرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم