Naye Saal Ki Khushi Manana Kaisa?‎

نئے سال کی خوشی منانا کیسا ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:pin:4286

تاریخ اجراء:04صفرالمظفر1435ھ/17نومبر2015ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ نئے عیسوی سال کی آمد پر خوشی منانا کیساہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جواب جاننے سے قبل یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اسلام میں قمری نظام الاوقات کو خاص اہمیت حاصل ہے،جس کا سال جنوری سے نہیں بلکہ محرم سے شروع ہوتا ہے ۔ اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں بارہ مہینوں کا تذکرہ فرمایا، ان سے قمری مہینے ہی مراد ہیں اور انہیں کو اللہ عزوجل نے لوگوں کے لیے اوقات قرار دیا ۔ شریعت کے کثیر احکام ِعبادات و معاملات مثلاً : روزہ، زکوۃ، حج، عورتوں کی عدتیں،  رضاعت ، بلوغت وغیرہ بھی انہی پر مبنی ہیں ۔ نیز قمری سال عرف و استعمال کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کی علامت سمجھی جاتی ہے ، اس لیے بہت عمدہ ہے کہ ہم اپنے نجی، سماجی اور معاشرتی معاملات میں حتی الامکان اس کا اعتبار کریں۔

     رہی صورت مسئولہ ! تو نئے عیسوی سال کی آمد پر شریعت کے دائرے میں رہ کر خوشی منانا ، جائز ہے کہ اللہ عزوجل نے نئے سال کا آغاز دیکھنا نصیب فرمایا۔ ہر سانس ، ہر گھڑی اللہ عزوجل کی عطا کردہ نعمت ہے۔

     لیکن حدودِ شرع کو پامال کرتے ہوئے نئے سال کی خوشی منانا ، جیسا کہ اس موقع پہ معاذ اللہ ! شراب نوشی، ناچ گانے کی محافل کا انعقاد، مردوں عورتوں کا اختلاط، بے پردگی و فحاشی، آتش بازی، ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے، نئے سال کا آغاز ہوتے ہی ادھم مچا کر، بلند آواز سے ڈیک لگا کر، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے سلنسر نکال کر گلیوں سڑکوں پہ گھومنا اور لوگوں کا سکون برباد کرنا، اس کے علاوہ وَن ویلنگ کا تماشا کرتے ہوئے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا الغرض طرح طرح کے خلافِ شرع امور کا ارتکاب کر کے خوشی منائی جاتی ہے۔ مزید برآں ان میں کئی امور خلافِ شرع ہونے کے ساتھ ساتھ قانونی جرم بھی ہوتے ہیں، جو ان کی حرمت میں اضافہ کر دیتے ہیں، اس انداز سے جو بھی خوشی منائی جائے، چاہے وہ نئے سال کی آمد کی ہو یا کوئی اور، ناجائز و حرام ہے۔

     مہینوں کے متعلق اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : ﴿ اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ مِنْہَاۤ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ترجمہ کنز الایمان : بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں ، جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ۔ ان میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ ‘‘( پارہ 10، سورۃ التوبہ، آیت 36)

     اس کے تحت معالم التنزیل میں ہے :’’المراد منہ الشھور الھلالیۃ وھی الشھور التی یعتد بھا المسلمون فی صیامھم و حجھم واعیادھم وسائر امورھم‘‘ ترجمہ : اس سے مراد قمری مہینے ہیں، جن کے ذریعے مسلمان اپنے روزوں، حج، عیدوں اور تمام امور کا حساب لگاتے ہیں ۔ ‘‘(معالم التنزیل ھامش علی تفسیر الخازن، سورۃ التوبہ، تحت آیت 36، جلد 3، صفحہ89، مطبوعہ مصر )

     قمری نظام الاوقات کو لوگوں کے لیے وقت قرار دیا ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ یَسْـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ  ، قُلْ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ترجمہ  کنز الایمان: تم سے نئے چاند کو پوچھتے ہیں۔ تم فرما دو : وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لیے ۔ ‘‘ ( پارہ 2، سورۃ البقرہ، آیت 189)

     اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر نسفی میں ہے:ای معالم يوقت بها الناس مزارعهم ومتاجرهم ومحال ديونهم وصومهم وفطرهم وعدة نسائهم وايام حيضهن ومدة حملهن وغير ذلك‘‘ ترجمہ : یعنی علامات جن سے لوگ اپنی زراعت، اجارہ، قرض اور دیون کی ادائیگی، روزہ، افطار، عورتوں کی عدت، ایام حیض اور حمل کی مدت وغیرہ کا وقت معلوم کرتے ہیں ۔ ‘‘( تفسیر نسفی، سورۃ البقرہ، تحت آیت 189، جلد 1، صفحہ 164، مطبوعہ بیروت )

     دین اسلام میں شراب نوشی حرام ہے۔ چاہے خوشی کا موقع ہو یا کوئی اور، اس کے ترک میں ہی انسان کی عافیت اور فلاح و کامیابی کا سامان ہے۔ چنانچہ شراب کے متعلق قرآن عظیم میں ہے :﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجْتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ترجمہ کنزالایمان : اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں، شیطانی کام ، تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔ ‘‘ ( پارہ 7، سورۃ المائدہ، آیت 90)

     یونہی خوشی کے موقع پر باجے کی آواز کو دنیا و آخرت میں ملعون قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مسند بزار میں ہے:’’صوتان ملعونان فی الدنيا والآخرة مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة‘‘ترجمہ : دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں: نعمت کے وقت باجے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز ۔ ‘‘(مسند بزار، مسند ابی حمزہ انس بن مالک، جلد 14، صفحہ 62، مطبوعہ مدینۃ المنورہ)

     اور گانوں کے متعلق سنن ابی داؤد و شعب الایمان میں ہے:الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء الزرع ترجمہ : گانا ، دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے، جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے ۔ ‘‘( شعب الایمان، فصل و مما ینبغی للمسلم المرء ان یحفظ اللسان عن الشعر  الخ، جلد 7، صفحہ 105، مطبوعہ ریاض )

     بہار شریعت میں ہے : ’’ ناچنا، تالی بجانا، ستار، ایک تارہ، دو تارہ، ہارمونیم، چنگ، طنبورہ بجانا، اسی طرح دوسرے قسم کے باجے سب ناجائز ہیں ۔ ‘‘( بھار شریعت، حصہ 16، صفحہ 511، مکتبہ المدینہ، کراچی )

     شریعت نے مرد و عورت دونوں کو پردے کاتاکیدی حکم دیا اور بے پردگی سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے :﴿ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمْ ، ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ،  اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوۡنَ وَ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا ترجمہ کنز الایمان : مسلمان مردوں کو حکم دو : اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے ۔ بے شک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں ، مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے ۔ ‘‘( پارہ 18، سورۃ النور، آیت 30،31)

     فتاوی رضویہ میں ہے:’’لڑکیوں کا غیر مردوں کے سامنے خوش الحانی سے نظم پڑھنا حرام ہے اور اجنبی نوجوان لڑکوں کے سامنے بے پردہ رہنا بھی حرام ۔۔۔ اور جو اپنی لڑکیوں کو ایسی جگہ بھیجتے ہیں، بے حیا ، بے غیرت ہیں ، ان پر اطلاقِ دیوث ہو سکتا ہے ۔ ‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 690، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

     مروجہ آتش بازی جو شادی بیاہ، شب برات و نیو ائیر نائٹ کے موقع پر کی جاتی ہے ، حرام ہے۔ چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے : ’’ آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب برات میں رائج ہے، بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں تضییعِ مال ( یعنی مال ضائع کرنا )ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی فرمایا ۔ قال اللہ تعالیٰ:﴿ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیۡرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ،  وَکَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا ترجمہ : اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: کسی طرح بے جا خرچ نہ کرو، کیونکہ بے جا خرچ کرنے والے شیاطین کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بہت بڑا نا شکرا ہے ۔ ‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 279، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

     ایسے مواقع پہ ہلڑ بازی یقیناً مسلمانوں کی ایذا کا باعث بنتی ہے، جبکہ  بلا وجہ شرعی کسی مسلمان کو اذیت دینا بھی حرام ہے۔ حدیث پاک میں ہے: من اٰذی مسلماً فقد اٰذانی ومن اٰذانی فقد اذی اللہ‘‘ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی، اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ کو ایذا دی ۔ ‘‘( المعجم الاوسط، باب السین، من اسمہ سعید، جلد 4، صفحہ 60، مطبوعہ قاھرہ )

     وَن ویلنگ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اور اللہ تعالی نے اپنے آپ کو ہلاکت والے کاموں میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿  وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِترجمہ : اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔(پارہ 2،سورۃ البقرہ، آیت 195)

     اس آیت کریمہ کے تحت نور العرفان میں ہے : ’’معلوم ہوا کہ ہلاکت کے اسباب سے بھی بچنا فرض ہے۔ جیسے خود کشی کرنا، بھوک ہڑتال کر کے اپنے آپ کو ہلاک کرنا، زہر کھانا، طاعون کی جگہ جانا وغیرہ ۔ ‘‘( نور العرفان، صفحہ 37، نعیمی کتب خانہ، گجرات )

     ساتھ ہی ساتھ ون ویلنگ قانوناً بھی جرم ہے اورقانونی جرم کا ارتکاب شرعاً ناجائزہے ۔ فتاوی رضویہ میں ہے:’’ کسی ایسے امر کا ارتکاب جو قانوناً ناجائز ہو اور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاً بھی ناجائز ہو گا کہ ایسی بات کے لیے جرم قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے لیے پیش کرنا شرعاً بھی روا نہیں۔قال تعالیٰ:﴿ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ ترجمہ : اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو ۔ ‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 192، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم