Murgi Ke Panje Ka Salan Paka Kar Khana Kaisa ?

مرغی کے پنجوں کا سالن پکا کر کھانا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12296

تاریخ اجراء:        16 ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/16جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مرغی کے پنجوں کا سالن پکا کر کھانا کیا جائز ہے ؟؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی طریقے سے ذبح کی گئی مرغی کے پنجوں کو اچھی طرح دھو کر پاک و صاف کرکے کھانا شرعاً جائز ہے اس میں کوئی حرج والی بات نہیں، کیونکہ مذبوح حلال جانور کے ممنوعہ اجزاء کے علاوہ دیگر تمام اجزاء کا کھانا شرعاً جائز ہے۔

چنانچہ درِ مختار  میں ہے: ”اذا ماذکیت شاۃ فکلھا سوی سبع ففیہن الوبال“ یعنی  جب بکری ذبح کی گئی تو سات اجزاء جن میں وبال ہے ان کے ماسوا سب اجزاء کو کھاؤ۔ (درِ مختار مع ردالمحتار ، مسائل شتی،  ج 10، ص 513، مطبوعہ کوئٹہ)

   امام محمد ہاشم بن عبد الغفور ٹھٹھوی علیہ الرحمہ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:”قال محیی السنۃ البغوی فی تفسیرہ المسمی بمعالم التنزیل فی قولہ تعالیٰ:  " تَاْكُلُوْنَ" (سورۃ النحل: 05) ای من البانھا، و ما یتخذ منھا کالسمن و الزبدۃ و غیر ذلک و لحومھا و قرونھا و عصبھا و جلودھا و اطرافھا و عظامھا و مخھا و عروقھا و شمحھا، و جمیع ما کان فی المذبوح الماکول سوی ما کرہ النبی صلی اللہ علیہ و سلم، و ھو سبعۃ اشیاء من الشاۃ المذبوحۃ: الذکر، و القبل، و الانثیان، و الغدۃ، و المثانۃ، و المرارۃ، و الدم المسفوح۔“ترجمہ : ”محیی السنۃ البغوی علیہ الرحمہ  اپنی تفسیر جس کا نام "معالم التنزیل " ہے اس تفسیر میں اس ارشادِ باری تعالٰی "تَاْكُلُوْنَ "کے تحت فرماتے ہیں یعنی تم ان جانوروں کا دودھ اور اس دودھ سے بننے والی چیزیں جیسا کہ گھی اور مکھن وغیرہ کھاتے ہو، اسی طرح ان جانوروں کا گوشت، سینگ، پٹھے، کھال، اعضاء، ہڈیاں، مغز، رگیں، چربی اور مذبوح حلال جانور کے تمام اعضاء ، سوائے ان اعضاء کے جنہیں سرکار صلی اللہ علیہ و سلم نے مکروہ قرار دیا اور وہ مذبوحہ بکری میں سات چیزیں ہیں: علاماتِ نر اور مادہ، خصیے، غدود، مثانہ، پتااور بہتا خون۔ “ (فاکھۃ البستان ، ص 173-172،مطبوعہ بیروت)

   سری پائے کھانے سے متعلق فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”سرے پائے خود کھائے خواہ اقرباء مساکین جسے چاہے۔ خواہ سب حجام یا سب سقا کو دے دے شرع مطہر نے ان کا کوئی خاص حق اس میں مقرر نہ فرمایا۔(فتاوٰی رضویہ، ج 20، ص 586، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوٰی  فیض الرسول میں ہے:”قربانی کے جانور کے سری یا پائے خود کھائے یا کسی دوسرے کو بطورِ ہدیہ دے دے شرعاً اس کا کوئی حقدار نہیں۔“ (فتاوٰی  فیض الرسول،  ج 02، ص 470، شبیر برادرز، لاہور، ملخصاً)

   مفتی وقار الدین  علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”حلال جانوروں کی کھال حلال ہےاور بال وغیرہ صاف کرنے کے بعد (سری پائے) کا کھانا بھی جائز ہے۔“ (وقار الفتاوٰی، ج01، ص214، بزم وقار الدین،ملخصاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم