Murawwajah Qawwali Karwane Ka Sharai Hukum

مروجہ قوالی کروانے کا شرعی حکم

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2509

تاریخ اجراء: 17شعبان المعظم1445 ھ/28فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   قوالی جو آج کل عام طور پر کی جارہی ہے ،یہ اپنے گھر میں کروا سکتے ہیں یا نہیں ؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مروجہ قوالی جو مزامیر (آلاتِ موسیقی )کے ساتھ ہوتی ہے, اس کا پڑھنا سننا ،ناجائز وحرام ہے ۔لہذا ایسی قوالی کو گھروں اور مزارات وغیرہ سے مکمل طور پر ختم کرنا واجب ہے۔توایسی قوالی کاگھریاباہرکہیں بھی اہتمام کرنا،جائزنہیں ۔

   چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے :”وعن ابی عامر أو ابی مالک الأشعری قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول :لیکونن من أمتی أقوام یستحلون الخزوالحریر والخمر والمعازف ۔“یعنی: حضرت ابو عامر سے یا ابو مالک اشعری سے روایت ہے  فرماتے ہیں :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے  سنا کہ میری امت میں وہ قومیں ہوں گی جو موٹے پتلے ریشم   اور شراب، باجوں کو حلال سمجھ لیں گی۔ (صحیح بخاری،کتاب الأشربۃ  ،حدیث :5590،صفحہ  1024،مکتبہ العصریہ ،بیروت )

   اس حدیث پاک  کے تحت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمہ اللہ مرآۃ المناجیح میں فرماتے ہیں :” یعنی میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ان محرمات کو حلال ہی جان لیں گے،یا حلال کی طرح بے دھڑک استعمال کریں گے،یا ان چیزوں کی حلت کے لیے تاویلیں کریں گے مثلًا کہیں گے کہ ریشم اگر جسم سے متصل ہو تو حرام ہے ورنہ نہیں،ہم نے کرتا سوتی پہنا ہے اوپر سے اچکن ریشمی ہے،یا کہیں گے کہ باجے وغیرہ قوالی میں حلال ہیں مجازی عشق کے لیے باجے حرام ہیں ہم تو اﷲ رسول کے عشق کے لیے سنتے ہیں وغیرہ۔“( مرآۃ المناجیح،جلد07،صفحہ  123،قادری پبلشرز ،لاہور )

   فتاوی رضویہ شریف میں سیدی  اعلی حضرت رحمہ اللہ  سے سوال ہوا :کہ قوالی سننا کن اشخاص کو جائز ہے؟ آپ رحمہ اللہ  نے جواب ارشاد فرمایا :قوالی مع مزامیر سننا کسی شخص کو جائز نہیں ۔( فتاوی رضویہ،جلد 24،صفحہ  510،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور )

   بہارِ شریعت میں ہے : ”متصوفہ زمانہ(بناوٹی صوفی ) کہ مزامیر کے ساتھ قوالی سنتے ہیں اور کبھی اوچھلتے کودتے اور ناچنے لگتے ہیں اس قسم کا گانا بجانا، ناجائز ہے، ایسی محفل میں جانا اور وہاں بیٹھنا ناجائز ہے، مشایخ سے اس قسم کے گانے کا کوئی ثبوت نہیں۔جو چیز مشایخ سے ثابت ہے وہ فقط یہ ہے کہ اگر کبھی کسی نے ان کے سامنے کوئی ایسا شعر پڑھ دیا جو ان کے حال و کیف کے موافق ہے تو ان پر کیفیت و رقت طاری ہوگئی اور بے خود ہو کر کھڑے ہوگئے اور اس حال وارفتگی میں ان سے حرکات غیر اختیاریہ صادر ہوئے، اس میں کوئی حرج نہیں۔  مشایخ و بزرگانِ دین کے احوال اور ان متصوفہ کے حال و قال میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہاں مزامیر کے ساتھ محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، جن میں فساق و فجار کا اجتماع ہوتا ہے، نااہلوں کا مجمع ہوتا ہے، گانے والوں میں اکثر بے شرع ہوتےہیں، تالیاں بجاتے اور مزامیر کے ساتھ گاتے ہیں اور خوب اچھلتے کودتے ناچتے تھرکتے ہیں اور اس کا نام حال رکھتے ہیں ان حرکات کو صوفیہ کرام کے احوال سے کیا نسبت، یہاں سب چیزیں اختیار ی ہیں وہاں بے اختیاری تھیں۔“( بہار شریعت،جلد03،حصہ 16،ص 511،مکتبۃالمدینہ ،کراچی )

   اسی طرح فتاوی بحر العلوم میں مفتی عبد المنان اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :مروجہ قوالی جو مزامیر کے ساتھ ہوتی ہے  نہ شریعت میں جائز ہے ،نہ مشائخِ  چشت سے ثابت ہے ۔“( فتاوی بحر العلوم،جلد05،صفحہ  583،شبیر برادرز ،لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم