Motapa Kam Karne Ke Liye Bariatric Surgery Karwana Kaisa ?

موٹاپا کم کرنے کے لیے (Bariatric surgery) کروانا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8512

تاریخ اجراء: 29 صفر المظفر1445ھ/16 ستمبر 2023

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ  کچھ سالوں سے میڈیکل ترقی کے نتیجے میں (Bariatric surgery) کے ذریعے موٹاپے کو قابو کرنے کا طریقہ سامنے آیا ہے۔اِس کا دوسرا نام (Metabolic Surgery) بھی ہے۔اس سرجری کی تفصیلات یہ ہیں کہ جب موٹاپا مخصوص حد سے بڑھ جائے، یعنی کسی شخص کی بی ایم آئی(BMI) اوورویٹ  (Overweight)ہو جائے اور موٹاپا اِتنا بڑھ جائے کہ وہ خود ایک  بیماری کی شکل اختیار کر لے، نیز مختلف امراض مثلاً: بی پی، شوگر اور دیگر دل کے امراض   لاحق ہو چکے ہوں یا لاحق ہونے کا قوی ترین اندیشہ ہو اور موٹاپا کم کرنے کے دیگر ذرائع مثلاً ورزش وغیرہ  کارآمد ثابت نہ ہو رہے ہوں، تو اس صورت میں ڈاکٹرز اس سرجری کا مشورہ دیتے ہیں۔یہ سرجری لیپروسکوپک ٹیکنالوجی (Laparoscopic Technology) کے ذریعے کی جاتی ہے اور  اس کے دو طریقے ہیں۔

Gastric Bypass Surgery

 اِس طریقہ میں  کھانے کو براہِ راست  معدے اور آنت کے ابتدائی حصے میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، بلکہ بائی پاس کرتے ہوئے ڈائریکٹ  معدے کے  معمولی سے حصے سے گزر کر کھانا چھوٹی آنت کے درمیان میں داخل ہوتا ہے۔اس کے دو فائدے ہوتے ہیں۔ پہلا یہ  کہ کھانے کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کھانا مکمل ہضم نہیں ہوتا، جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ  مکمل ہضم ہونے کے نتیجے میں جن بیماریوں کے ہارمونز کو طاقت ملتی ہے، وہ ملنا بند ہو جاتی ہے اور بیماریوں کے اثرات میں کمی واقع ہوتی ہے۔

 

 

 

         

 

 

 

 

Sleeve Gastrectomy

اِس طریقہ کار میں معدے  کو کاٹ کر اِس کا سائز چھوٹا کیا جاتا ہے اور معدے کو سٹیپل کر دیا جاتا ہے، جس سے پیٹ جلدی بھرنے کا احساس ہوتا ہے اور خوراک کم ہو جاتی ہے،  پھر  اِس سرجری اور مزید طبی ہدایات  کی بدولت چند مہینوں میں مریض کے وزن پر کافی اثر ظاہر ہوتا ہے۔

 

 

 

 

 

پاکستان اور بالخصوص مغربی ممالک میں اس سرجری کا کافی رجحان ہے۔ اس  سرجری کی مختلف تھری ڈی ویڈیوز اور مریضوں کے تاثرات  انٹر نیٹ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا  اسلامی نقطہِ نظرسے یہ سرجری کروانا،جائز ہے؟ اس سرجری کی اردو تفصیلات کےلیے یہ آرٹیکل (https://www.nawaiwaqt.com.pk/08-Jan-2018/744409)مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جراحت  (Operation/ Surgery) ایک قدیم طبی طریقہِ علاج ہے۔ اہلِ طب کی کتب میں اِس کی تفصیلات موجود ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے  اس کی اجازت کچھ حدود وقیود سے مقید ہے، چونکہ کسی بھی عضو کو چیرنا، کاٹنا  یا تلف کرنا، درحقیقت اُس عضو کو فاسِد کرنے کے مترادف ہے اور یہ اُصولی طور پر ممنوع اور حرام ہے، کہ یہ خدا کی بنائی ہو ئی چیز کو بدلنا ہے ، لیکن فقہائے کرام  نے بغرضِ علاج وتداوی ، دفعِ عیب  اور ضرورتِ شرعیہ کو بنیاد  بنا تے ہوئے قواعدِ شرعیہ کی روشنی میں اِس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے، اِس کی امثلہ نیچے بیان کی جائیں گی۔

   جہاں تک سوال میں بیان کردہ تفصیلات کا تعلق ہے، تو اِس کے متعلق مختلف اردو اور انگریزی تحقیقات، نیز اس سرجری کے ماہر اطباء کی آراء جاننے کے بعد یہ جواب ہے کہ یقیناً موٹاپے کا بہت زیادہ بڑھ جانا، ازخود بیماری  اور عیب ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سی مُہلک بیماریاں لگنے کا یقینی اور قوی اندیشہ ہوتا ہے، لہذا اَوَّلاً تو موٹاپے پر قابو پانے کے لیے ادویات ، غذائی جدول  اور مختلف جسمانی ورزشوں  کا طریقہ اختیار کیا جائے کہ اِن طریقوں پر سنجیدگی سے عمل کرنا، موٹاپے کو قابو کرنے میں واضح اثر ظاہر کرتا ہے، لیکن بعض اوقات موٹاپا اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ مریض چلنے پھرنے سے بھی عاجز آنے لگتا  اور مختلف طرح کے امراض کا شکار ہو جاتا ہے اور یہی وہ اسٹیج ہوتی ہے کہ جب ڈاکٹرز اِس سرجری کو ہی کارْگَرْ ثابت مانتے ہیں، لہذا اگر  واقعی موٹاپا اتنا  بڑھ چکا ہو کہ  عیب اور بیماری کی صورت اختیار کر لے، شدید امراض  ،مثلاً: ذیابیطس، فالج، دم گھٹنا یا  امراضِ قلب  وغیرہا لاحق ہو چکے ہوں یا لاحق ہونے کا غالب خدشہ ہو،  پھر ماہر طبیب اسی علاج کو تجویز کریں اور اِس کے علاوہ بظاہر کوئی حل  موجود نہ ہو، نیز اس سرجری میں مریض کی ہلاکت یا کسی دوسرے ضررِ شدید میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو، تو بغرض ِعلاج  اور دفعِ عیب کے لیے یہ سرجری کروانا، جائز ہے، لیکن اگر مذکورہ صورتِ حال نہ ہو، یعنی دیگر ذرائع سے موٹاپے پر قابو پانا، ممکن ہو یا  عورت کہ  فقط اپنی جسمانی خدو خال کی خوبصورتی کے لیے سرجری کروائے،تو اِس کی شرعاً اجازت نہیں۔

   عضو کاٹنے کے متعلق”مسلم شریف“ میں ہے:’’عن جابر قال:بعث رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إلى أبي بن كعب طبيبا فقطع منه عرقا ثم كواه عليه‘‘ترجمہ:حضرت جابر سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی طرف ایک طبیب کو روانہ کیا، چنانچہ اُس طبیب نے آپ کی رگ کو کاٹا اور پھر اُس جگہ کو  (گرم چیز سے)داغ دیا۔(صحیح المسلم، جلد 04 ، صفحه 1730،مطبوعه دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   اِس کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں: اس سے معلوم ہوا کہ آپریشن بڑا پرانا علاج ہے۔ زمانہ نبوی میں اس کی اصل موجودتھی۔ چیر پھاڑ،  رگ کی کاٹ چھانٹ یہ ہی آپریشن کی حقیقت ہے،چونکہ رگ کٹ جانے سے تمام خون نکل جانے کا اندیشہ تھا،  اس لیے زخم کو آگ سے جھلسا دیا گیا، تاکہ خون بند ہو جائے۔(مراٰۃ المناجیح، جلد06، صفحہ216،   مطبوعہ  ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاھور)

بغرضِ علاج اعضاء کی قطع وبُرید  پر امثلہ:

    (1)اگر ہاتھ  پر آکلہ (عضو کو کھانے والی بیماری) ظاہر ہو جائے  تو فقہائے کرام نے حکم دیا کہ اُس عضو کو کٹوانا، جائز ہے، تا کہ وہ مرض جسم کے  دوسرے حصوں میں سرایت نہ کرے۔فتاویٰ  عالَمگیری میں ہے:’’لا بأس بقطع العضو إن وقعت فيه الآكلة لئلا تسري كذا في السراجيةولا بأس بقطع اليد من الآكلة وشق البطن لما فيه‘‘ ترجمہ:اگر کسی عضو میں آکلہ ظاہر ہو جائے، تو اُس عضو کو کاٹنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، تا کہ وہ مرض دیگر اعضا میں سرایت نہ کرے،جیسا کہ ”السراجیۃ“ میں ہے۔  آکلہ کے سبب ہاتھ کاٹنے یا پیٹ میں کسی چیز کے سبب پیٹ چیرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد05، صفحہ360،مطبوعہ کوئٹہ)

   الجوھرۃ النیرۃ“میں ہے:’’إذا قال لرجل اقطع يدی وذلك لعلاج كما إذا وقعت فيها أكلة فلا بأس به وإن كان من غير علاج لا يحل له قطعها‘‘ ترجمہ:جب ایک شخص نے دوسرے سے کہا: میرے ہاتھ کو کاٹ دو اور یہ کٹوانا علاج کے لیے ہو، جیسا کہ ہاتھ میں آکلہ پیدا ہو جائے ،تو اِس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر یہ کٹوانا بغرضِ علاج نہ ہو، تو کٹوانا حلال نہیں، بلکہ حرام ہے۔(الجوھرۃ النیرہ، جلد02، صفحہ337، مطبوعہ ملتان)

   (2) اگر پیدائشی طور پر جسم کے کسی حصے پر اضافی گوشت  ہو، تو اُسے کٹوانا، جائز ہے، بشرطیکہ اُسے کٹوانے میں مریض کی ہلاکت کا قوی اندیشہ نہ ہو، چنانچہ اِسی میں ہے:’’من له سلعة زائدة يريد قطعها إن كان الغالب الهلاك فلا يفعل وإلا فلا بأس به كذا في خزانةالمفتين‘‘ترجمہ:جس کے جسم پر اضافی گوشت ہو اور وہ کٹوانے کا ارادہ رکھتا ہو، تو  اگر مریض کی ہلاکت  کا قوی اندیشہ ہو، تو یہ گوشت کٹوانا، جائز نہیں، ورنہ کوئی حرج نہیں، جیسا کہ ”خزانۃ المفتین“ میں ہے۔(الفتاوى الھندیہ، جلد05، صفحہ360،مطبوعہ کوئٹہ)

    (3)علاج یا عیب دور کرنے کے لیے دانت گھسوانا، جائز ہے، چنانچہ شارِح بخاری، علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’اللام فیہ للتعلیل احترازاعمالوکان للمعالجۃ ومثلھا ‘‘ ترجمہ:(حدیث مبارک میں) ”للحسن“ پر آنے والا ”لام“  تعلیل کا ہے اور اِس مسئلہ سے احتراز کرنے کے لیے ہے کہ اگر دانت گھسوانا، علاج وغیرہ کے لیے ہو، تو جائز ہے۔(عمدۃ القاری، جلد 22، صفحہ 63، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   (4)زائد انگلی کٹوانا، جائز ہے، چنانچہ مجتہد فی المسائل امام قاضی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:’’إذا أراد أن يقطع إصبعا زائدة أو شيئا آخر قال أبو نصر رحمه اللہ تعالى إن كان الغالب على من قطع مثل ذلك الهلاك فإنه لا يفعل لأنه تعريض النفس للهلاك  و إن كان الغالب هو النجاة فهو في سعة من ذلك‘‘ ترجمہ:جب کوئی شخص اپنی زائد انگلی یا کسی دوسرے زائد عضو کو کٹوانے کا ارادہ رکھے،تو ایسے فرد کے متعلق امام ابو نصر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:اگر انگلی وغیرہ کٹنے سے ہلاکت غالب ہو ،تو وہ شخص  اپنی زائد  انگلی نہیں کٹوا سکتا، کیونکہ اِس صورت میں اپنی جان کو ہلاکت پر پیش کرنا ہے اور اگر سرجری کا کامیاب ہونا اور صحت مل جانا غالب ہو ،تو انگلی  یا کسی بھی زائد عضو کے کٹوانے کی گنجائش موجود ہے۔(فتاویٰ قاضی خان، جلد3، صفحہ 313، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   مذکورہ بالا جملہ مسائل میں فقہائے کرام نے بغرضِ علاج جسم کے کسی حصے  کو تلف کرنے  کا جواز بیان کیا ہے۔

موٹاپا ایک عیب اور بیماری  ہے، نیز عضو کو تلف کرنے کا جواز:

   بہت زیادہ  موٹاپا ہو جانا  ایک عیب   اور بہت سی بیماریوں کا باعث ہے، چنانچہ مشہور مسلم سائنس دان اور طبیب  محمد بن زکریا رازی نےاپنی کتاب ”الحاوی فی الطب“ میں لکھا:’’إذا كثر الشحم هاج الغثيان،  وَقَلَتِ النطف والفالج واللقوة والموت الفجأة ‘‘ ترجمہ:جب چربی بہت بڑھ جائے، تو قے کی کثرت،  مختلف طرح کے فساد وعیوب ، فالج ، لقوہ اور اچانک موت  کے خطرات جڑ پکڑتے ہیں ۔(الحاوی فی الطب، جلد 02، صفحہ 143، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   بعض اوقات کسی عضو کو تلف کرنا، دیگر جسمانی اعضاء کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے، لہذا جب یہ ”اِتلاف “ بغرضِ اصلاحِ بدن ہو، تو جائز ہے، چنانچہ سلطان العلماء علامہ  عز بن عبدالسلام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:660 ھ/ 1262ء)نے قواعد فقہیہ پر مشتمل اپنی کتاب  قواعد الاحکام فی مصالح الانام“ میں لکھا: ’’الاتلاف وھو اضرب أحدها: إتلاف لإصلاح الأجساد، وحفظ الأرواح، كإتلاف الأطعمة … ويلحق به قطع الأعضاء المتآكلة حفظًا للأرواح، فإن إفساد هذه الأشياء جائز للإصلاح‘‘ ترجمہ:عضو تلف کرنے کا حکم چند انواع پر ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ جسم کی اصلاح  اور جان کی حفاظت کے لیے کسی عضو کو تلف کرنا، جیسا کہ کھانوں کو تلف کیا جاتا ہے۔ اِسی حکم میں آکلہ زدہ اعضاء کو کاٹنے کا حکم بھی شامل ہو گا، کہ اُس میں  بھی بدن اور جان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے۔ بے شک اِن چیزوں میں کسی عضو کو فاسد، معطل اور تلف کرنا، بغرض اِصلاح، جائز ہے۔(قواعد الاحکام فی مصالح الانام، جلد 02، صفحۃ 87، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   درر الحكام في شرح مجلة الأحكام“ میں ہے:’’إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضررا بارتكاب أخفهما لأن الضرورات تبيح المحظورات، فإذا وجد محظورات وكان من الواجب أو من الضروري ارتكاب أحد الضررين فيلزم ارتكاب أخفهما و أهونهما‘‘ ترجمہ:جب دو خرابیاں متعارض ہوں،  تو کم خرابی  کا ارتکاب کرتے ہوئے بڑی خرابی کی رعایت کی جائے گی، کیونکہ ضروریاتِ شرعیہ ، ممنوع کاموں کو مباح کر دیتی ہیں، لہذا جب کوئی ممنوع شرعی پایا جائے اور دو خرابیوں میں سے کسی ایک کا ارتکاب لازم اور ضروری ہو، تو ہلکی اور خفیف خرابی کا ارتکاب کر لیا جائے گا۔(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، جلد 01، صفحہ 41، مطبوعہ  دار الجیل)

   جان یا اعضاء کے نقصان یا فساد کا صحیح اندیشہ حکمِ شرعی میں تخفیف کا باعث ہوتا ہے، جیسا کہ زین الدین علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:’’مشقة عظيمة فادحة كمشقة الخوف على النفوس والأطراف ومنافع الأعضاء فهي موجبةللتخفيف‘‘ ترجمہ:ایسی مشقت کہ جو بہت بڑی  ہو اور سخت دشواری کا باعث ہو، جیسا کہ اپنی جان، اعضاء یا اُن کے منافع پر کسی طرح کا خوف ہونا، تو یہ مشقت حکمِ شرعی میں تخفیف کا باعث ہوتی ہے۔(الاشباہ والنظائر، صفحہ 70، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   احکام الجراحۃ الطبیۃ والآثار المترتبۃ علیھا “ میں ہے:’’ يشترط في الضرر أن يغلب على ظن الطبيب وقوعه ، أما إذا لم يغلب على ظنه بأن كان متوهماً مثلاً كما في جراحة استئصال اللوزتين السليمتين من الأطفال خشية التهابها مستقبلاً ، فإن هذا الظن المتوهم لا تأثير له ، ولا يصير به المريض محتاجاً، فهذه الأمراض ، والحالات الجراحية إذا لم يتم علاجها بالجراحة اللازمة ، فإنها تهدد الأعضاء المصابة وغيرها بالخطر فعلى سبيل المثال : مرض الجلوكوما المزمن الذي يصيب العين ، لايحس المريض المصاب به بآلام سوی صداع خفیف ، ولا يزال يسري في العين المصابة إلى أن يؤدي إلى فقد الإبصار بها بالكلية بجواز هذا النوع من الجراحة يعتبر متفقاً مع أصول الشرع وقواعده  وذلك لأن الشريعة الإسلامية راعت رفع الحرج، ودفع الضرر عن العباد ، كما دلت على ذلك نصوص الكتاب العزيز ، والسنة النبوية المطهرة‘‘ ترجمہ: مرض کے مضر ہونے میں شرط یہ ہے کہ کسی  ماہر طبیب کی رائے پر اُس کا ضرر رساں ہونا غالب ہو۔ اگر غالب اندیشہِ ضرر نہ ہو، بلکہ فقط ایک وہمی خدشہ ہو، مثلاً بچوں کے صحیح ٹانسلز کو نکلوانے کے لیے آپریشن   کروا دینا تا کہ یہ مستقبل میں پھول نہ جائیں، تو اِس وہم کی آپریشن کے جواز  کے لیے کوئی تاثیر نہیں اور نہ ہی مریض اِس  آپریشن کا محتاج ہوتا ہے۔ البتہ اِن امراض (Liver Cyst, Glaucoma, Cardiac Tumors) کا اگر لازمی آپریشن نہ کیا جائے، تو یہ اُن مرض زدہ اور دیگر اعضاء کو نقصان پہنچاتے ہیں، مثلاً:آنکھ میں موتیا اُتر آنا کہ اِس سے مریض کو معمولی تکلیف کا ہی سامنا ہوتا ہے، لیکن یہ مرض آہستہ آہستہ کلی طور پر بصارت کے زوال کا سبب بن جاتا ہے، لہذا اِس طرح کے آپریشن کے جواز میں شریعت اسلامیہ کے قواعد واصول متفق ہیں، کیونکہ شریعت اسلامیہ رفعِ حرج  اور لوگوں سے دفعِ ضرر کی رعایت رکھتی ہے، جیسا کہ اِس پر کتاب اللہ اور سنتِ نبویہ کی بہت سی نصوص دلالت کرتی ہیں۔(احکام الجراحۃ الطبیۃ والآثار المترتبۃ علیھا، صفحہ 142، مطبوعہ  مکتبۃ الصحابہ، جدۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم