Moochain Bilkul Saaf Karne Ka Kya Hukum Hai ?

مونچھیں بالکل صاف کروانے کا کیا حکم ہے ؟

مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی

مصدق : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:29

تاریخ اجراء: 29شوال المکرم1430ھ/19اکتوبر2009ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا بالکل مونچھیں صاف کرنا چاہیے ؟ اگر کوئی مونچھیں بالکل صاف کرے تو اس پر کیا حکم ہے ؟ حرام ہے یا مباح ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مونچھوں کے متعلق مختلف روایا ت ہیں ۔بہارشریعت میں ہے:’’مونچھوں کو کم کرنا سنت ہے اتنی کم کرے کہ ابرو کی مثل ہوجائیں یعنی اتنی کم ہوں کہ اوپر والے ہونٹ کے بالائی حصہ سے نہ لٹکیں اور ایک روایت میں مونڈانا آیا ہے۔‘‘ (بھارشریعت ، حصہ16، جلد3،صفحہ585،مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   ہندیہ میں ہے:’’ذکر الطحاوی فی شرح الآثار أن قص الشارب حسن ، وتقصیرہ أن یؤخذ حتی ینقص من الإطار وھو الطرف الأعلی من الشفۃ العلیا قال والحلق سنۃ وھو أحسن من القص وھذا قول أبی حنیفۃ وصاحبیہ رحمھم اللہ‘‘ترجمہ: امام طحاوی نے شرح الآثار میں فرمایا کہ مونچھیں کاٹنا اچھا ہے اور اس کا کم کرنا اتنا ہے کہ اوپر والا ہونٹ واضح ہو جائے۔فرمایا کہ مونڈنا سنت ہے اور یہ کاٹنے سے زیادہ اچھا ہے اور یہ قول امام ابوحنیفہ و صاحبین رحمہم اللہ کا ہے۔(ھندیہ،کتاب الکراھیۃ،الباب التاسع،قص الشارب،جلد5،صفحہ358،مطبوعہ کوئٹہ)

   بحرالرائق میں ہے:’’أن السنۃ قص الشارب لا حلقہ‘‘ترجمہ: سنت مونچھیں کتروانا ہے منڈوانا نہیں۔(البحر الر ائق ،کتاب الحج،باب الجنایات فی الحج،جلد3،صفحہ18،مطبوعہ کوئٹہ)

   اصل بات یہ ہے کہ مونچھیں خوب پست کرنا سنت ہے ، کاٹنا بھی درست ہے اور مونڈنا گناہ نہیں ۔حلق کے معنی مونڈناہیں ،قص کے معنی کٹوانا،احفاء کے معنی خوب پست کرنا ہے۔فتاوٰی ہندیہ میں شرح معانی الآثار کے حوالے سے جو جزئیہ نقل کیا گیا ہے اس میں لفظ ’’حلق ‘‘جبکہ اصل کتاب میں احفاء ہے۔امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کی روشنی میں یہی ثابت کیا ہے کہ مونچھیں خوب پست کرنا مستحب ہے ۔ چنانچہ شر ح معانی الآثار میں ہے:’’قال أبو جعفر فذھب قوم من أھل المدینۃ إلی ھذہ الآثار ، واختاروا لھا قص الشارب علی إحفائہ وخالفھم فی ذلک آخرون فقالوا بل یستحب إحفاء الشوارب ، نراہ أفضل من قصھا۔۔ عن أبی ھریرۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال ( أحفوا الشوارب ، وأعفوا اللحی ).فھذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد أمر بإحفاء الشوارب ، فثبت بذلک الإحفاء علی ما ذکرنا،فی حدیث ابن عمر .وفی حدیث ابن عباس وأبی ھریرۃ ،( جزوا الشوارب )فذاک یحتمل أن یکون جزا ، معہ الإحفاء۔۔فإنا رأینا الحلق قد أمر بہ فی الإحرام ، ورخص فی التقصیر .فکان الحلق أفضل من التقصیر ، وکان التقصیر ، من شاء فعلہ ، ومن شاء زاد علیہ ، إلا أنہ یکون بزیادتہ علیہ أعظم أجرا ممن قص .فالنظر علی ذلک أن یکون کذلک حکم الشارب قصہ حسن ، وإحفاؤہ أحسن وأفضل . وھذا مذھب أبی حنیفۃ ، وأبی یوسف ، ومحمد ‘‘ترجمہ: امام جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل مدینہ کے ایک گروہ نے مونچھیں خوب پست کرنے سے  کاٹنے کو افضل ٹھہرایا ۔ دوسرے گروہ نے فرمایا کہ مونچھیں خوب پست کرنا کاٹنے سے افضل ہے ۔امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ہم مونچھیں خوب پست کرنے کو کاٹنے سے افضل جانتے ہیں چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مونچھیں خوب پست کرو اور داڑھی کو معافی دو۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں مونچھیں خوب پست کرنے کا حکم دیا تو خوب پست کرنے کا افضل ہونا اس حدیث سے ثابت ہوگیا۔حضرت ابن عمر،ابن عباس اور ابو ہریرہ کی جو حدیث ہے جس میں ہے مونچھیں کاٹو(جو کہ اہل مدینہ کے گروہ کا مذہب ہے) اس میں یہ احتمال ہے کہ اتنی کاٹو کہ پست ہو جائیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ احرا م میں حلق کرنے کا حکم دیا گیا اوربال چھوٹے کرنے کی رخصت دی گئی حالانکہ حلق کرنا اس سے افضل تھا  دیکھو یہی حکم مونچھوں کا ہے کہ کاٹنا اچھا ہے اور خوب پست کرنا زیادہ اچھا وافضل ہے اور یہ امام ابو حنیفہ،امام ابو یوسف وامام محمد کا مذہب ہے۔(شر ح معانی الآثار ،کتاب الکراھۃ، باب حلق الشارب،جلد2،صفحہ316،مطبوعہ لاھور)

   امام طحاوی کے اس ارشاد سے واضح ہوا کہ مونچھیں خوب پست کرنامستحب ہے۔فتاوٰی ہندیہ میں جو حلق کا لفظ استعمال ہوا ، اس کی یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ احفاء مونڈنے کے قریب ہوتا ہے،  ا س لئے وہاں لفظ حلق استعمال کیا گیا ، جبکہ مونڈنے کو بعض علماء نے مکروہ کہا ہے ۔ چنانچہ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:’’قال الطحاوی یستحب إحفاء الشوارب ونراہ أفضل من قصھا وفی شرح شرعۃ الإسلام قال الإمام الإحفاء قریب من الحلق وأما الحلق فلم یرد بل کرھہ بعض العلماء ورآہ بدعۃ اہ وفی الخانیۃ وینبغی أن یأخذ من شاربہ حتی یوازی الطرف الأعلی من الشفۃ العلیا ویصیر مثل الحاجب‘‘ ترجمہ : امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : مونچھوں کو خوب پست کرنا مستحب ہے اور ہمارے نزدیک کاٹنے سے یہ افضل ہے ۔ شرعۃ الاسلام کی شرح میں ہے : امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : احفاء مونڈنے کے قریب ہے اور بہر حال مونڈنا ، تو اس کا رد نہیں کیا جائے گا ، بلکہ بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور اسے بدعت میں شمار کیا ہے ۔ فتاویٰ خانیہ میں ہے : مناسب یہ ہے کہ اپنی مونچھوں کو کاٹے ، یہاں تک کہ اوپر والے ہونٹ والی سائیڈ کے برابر ہوجائے اور ابرو کی طرح ( باریک ) ہوجائے ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ،جلد1،صفحہ342،مطبوعہ مصر)

   ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:’’وفیہ دلیل لما قا لہ النووی من أن السنۃ فی امر الشارب أن لا یبالغ فی إحفائہ بل یقتصر علی ما تظھر بہ حمرۃ الشفۃ وطرفھا وھو المراد بإحفاء الشوارب فی الأحادیث ‘‘ ترجمہ:امام نووی کے قول کی اس حدیث میں دلیل ہے وہ فرماتے ہیں کہ مونچھیں پست کرنے میں سنت یہ ہے کہ بالکل ہی ان کاصفایانہ کیاجائے بلکہ اتنی پست ہوں کہ اوپر کے پورے ہونٹ کی سرخی نظرآئے ، آحادیث میں جومونچھیں پست کرنے کاحکم ہے ان سے یہی مرادہے ۔(مرقاۃ شرح مشکوۃ ،کتاب الاطعمہ،جلد7،صفحہ2728،دار الفکر ، بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم