Maut Ki Tamanna Karna Kaisa ?

 

موت کی تمنا کرنا کیسا ؟

مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-2945

تاریخ اجراء: 02صفر المظفر1446 ھ/08اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   موت کی تمنا کرنا کب جائز اور کب ناجائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دنیاوی نقصانات،دنیاوی مصیبتوں اور آزمائشوں کے سبب موت کی تمنا کرنا شرعاً ممنوع و نا جائز ہےاوردینی نقصان کے خوف سے جائزہے ۔

   صحیح بخاری میں ہے” عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم:  لا يتمنين أحدكم الموت من ضر أصابه، فإن كان لا بد فاعلا، فليقل: اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي، وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي“ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”تم میں سے کوئی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے ،اور اگر کرنی ہی ہو تو یوں کہے"اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے حق میں بہترہے اور مجھے وفات دے جس وقت موت میرے حق میں بہتر ہو۔(صحیح البخاری،رقم الحدیث 5671،ج 7،ص 121،دار طوق النجاۃ)

   اس کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے " ای من أجل ضرر مالي أو بدني. ۔۔۔۔(خيرا لي) أي: من الموت، وهو أن تكون الطاعة غالبة على المعصية والأزمنة خالية عن الفتنة والمحنة. (وتوفني) أي: أمتني. (إذا كانت الوفاة) ۔۔۔ (خيرا لي) أي: من الحياة بأن يكون الأمر عكس ما تقدم"ترجمہ:یعنی مالی یابدنی نقصان کی وجہ سے موت کی تمنانہ کرے۔(تمناکرنی ہوتویوں کرے کہ  مجھے زندہ رکھ جب تک)میرے لیے زندگی موت سے بہترہے اوروہ یوں کہ نیکی ،گناہ پرغالب ہواورزمانے فتنے اورآزمائش سے خالی ہوں ۔اور(یوں کہے کہ )مجھے وفات دے جب وفات میرے زندگی سے بہترہویوں کہ معاملہ گزشتہ صورت سے برعکس ہو۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الجنائز،باب تمنی الموت وذکرہ،ج 3،ص 1157،دار الفکر،بیروت)

   مرقاۃ المفاتیح میں ہے" وقال التوربشتي: النهي عن تمني الموت وإن كان مطلقا لكن المراد به المقيد لما في حديث أنس: «لا يتمنين أحدكم الموت من ضر أصابه» . وقوله - عليه الصلاة والسلام -: " «وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي» ". فعلى هذا يكره تمني الموت من ضر أصابه في نفسه أو ماله ; لأنه في معنى التبرم من قضاء الله تعالى، ولا يكره التمني لخوف فساد في دينه. "ترجمہ:اورعلامہ تورپشتی نے فرمایا:موت کی تمناسے ممانعت اگرچہ مطلق واردہوئی لیکن اس سے مرادخاص صورت ہے ،اس وجہ سے جو حدیث انس میں آیاہے کہ :"تم میں سے کوئی اس نقصان کی وجہ سے موت کی تمنانہ کرے جواسے پہنچاہے "اور حضور علیہ الصلوۃوالسلام کے اس فرمان کی وجہ سے کہ (موت کی تمناکرنی ہوتویوں کرے:)اورجب میرے لیے موت بہترہوتوتومجھے موت دے دے ۔پس اس بناپر اپنی جان یااپنے مال میں ہونے والے نقصان کی وجہ سے موت کی تمنا مکروہ ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کے فیصلےسے ناخوش ہونے کے معنی میں ہےاوراپنے دین میں فسادکے خوف سے موت کی تمناکرنامکروہ نہیں ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الجنائز،باب تمنی الموت وذکرہ،ج 3،ص 1156،دار الفکر،بیروت)

   امام اہلسنت الشاہ  امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ تعالی  علیہ فرماتے ہیں:’’خلاصہ یہ کہ دنیوی مضرتوں سے بچنے کے لئے موت کی تمنا ناجائز ہے اور دینی مضرت (دینی نقصان)کے خوف سے جائز۔‘‘     (فضائل دعا،ص 183، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم