Mard ka Surkh Libas pehnna kaisa hai ?

مرد کا سرخ لباس پہننا کیسا ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-5566

تاریخ اجراء:       18جمادی الثانی1439ھ07مارچ 2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ مرد کے لئے سرخ لباس پہننے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مردکے لئے کُسُم( ایک قسم کا پھول ہےجس سے گہرا سرخ رنگ نکلتا ہے اور اس سے کپڑے رنگے جاتے ہیں ، اس)سے رنگا ہوا سُرخ لباس پہننا ،ناجائز و ممنوع ہے،جبکہ خالص کُسُم سے رنگا ہو یا خالص سے تو نہ ہو ،بلکہ اس میں اور رنگوں کی بھی آمیزش ہو،مگرغالب کُسُم ہی ہو۔

   چنانچہ کسم سے رنگے ہوئے سرخ لباس کے بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ،ج5،ص159،مسند احمد بن حنبل، ج2،ص308اورسنن ابی داؤدمیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی،وہ فرماتے ہیں:’’نھی عن لبس القسی وعن لبس المعصفر وعن تختم الذھب وعن القراءۃ فی الرکوع‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ریشمی کپڑے،کسم سے رنگے ہوئے سرخ  لباس اورسونے کی انگوٹھی پہننے اور رکوع میں قراءت کرنے سے منع فرمایا۔(سنن ابی داؤد،کتاب اللباس،باب من کرہہ ،ج2،ص205،مطبوعہ،مکتبہ رحمانیہ،لاہور)

   محیط ِ برہانی،مجمع الانہراورفتاوی شامی میں ہے:’’ویکرہ ای للرجال لبس المعصفر والمزعفر،لقول ابن عمر رضی اللہ عنھما:نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن لبس المعصفر وقال:ایاکم والاحمر،فانہ زی الشیطان‘‘ترجمہ:مردوں کے لئے کسم اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے پہننا مکروہ ہے ،حضرت ابن ِ عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے اس فرمان کی وجہ سے کہ :حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسم سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے منع کیااور ارشاد فرمایا:سرخ رنگ سے بچو،کہ یہ شیطان کی ہیئت و وضع ہے۔(تنویر الابصار مع درمختار،کتاب الخنثی، مسائل شتی ،ج10،ص521،مطبوعہ مکتبہ حقانیہ،پشاور)

   اوراعلیحضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’عورت کو ہرقسم کا رنگ جائز ہے۔۔۔۔۔اور مر د کے لئے دو رنگوں کااستثناء ہے:معصفر اور مزعفر ،یعنی کسم اور کیسر، یہ دونوں مرد کوناجائز ہیں۔(فتاوی رضویہ ،ج22،ص185،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

     اعلیحضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کسم اور زعفران کو دوسرے رنگوں میں ملا کر کپڑا رنگنے کے بارے میں سوال ہوا،تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’اگر تھوڑے ملائے کہ مستہلک ہوگئے اور ان کا رنگ نہ آیا ،تو حرج نہیں،اذلا حکم للمستھلک ویشیر الیہ کلام التنویر:  کرہ لبس المعصفر والمزعفرالاحمر اوالاصفر للرجال ۔ کیونکہ جو چیز ہلاک ہو جائے ،اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ،اورصاحب ِ تنویر الابصار کا یہ کلام بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہےکہ: مردوں کے لئےکسم سے رنگے ہوئے سرخ اور زعفران سے رنگے ہوئے زرد کپڑے پہننا مکروہ ہے ۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،ج22،ص183تا184،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   اور کسم کے علاوہ  خالص سرخ رنگ کا لباس پہننے میں علماء کا اختلاف ہے،لیکن صحیح ومعتمد قول یہی ہے کہ جائز ہے، مگر  بچنا بہتر ہے،بالخصوص اس صورت میں جب سرخ رنگ زیادہ شوخ ہو  ۔

   چنانچہ درمختارمیں کسم اورزعفران سے رنگے ہوئے کپڑوں کی ممانعت بیان کرنے کے بعد ارشادفرمایا:’’ولا باس بسائر الالوان‘‘ترجمہ: (کسم اور زعفران کے علاوہ )بقیہ رنگوں کےکپڑے پہننے میں حرج نہیں ۔(درمختار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج9،ص591،مطبوعہ،مکتبہ حقانیہ،پشاور)

   اوراعلیحضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا:’’سرخ اور زردرنگ کا کپڑا پہننا مرد کوجائز ہے یانہیں؟ اور اس سے نماز درست ہے یانہیں؟ اگر پہننا مکروہ ہے،تو اس میں کراہیت تنزیہی ہے یا تحریمی؟ بعض احادیث سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سرخ جبہ زیب تن فرمانا ثابت اور زرد ملبوس رنگنا ظاہر ۔۔اور بعض احادیث سے اس کی نہی پیداوہو یدا۔۔ معصفر ومزعفر کی کیا تشریح ہے؟

   تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’ کسم کا رنگا ہوا سرخ اور کیسر کازرد،جنھیں معصفر ومزعفر کہتے ہیں مرد کو پہننا ، ناجائز وممنوع ہے اور ان سے نماز مکروہ تحریمی،اور ان کے سوا اور رنگت کا زرد بلا کراہت مباح خالص ہے،خصوصا زرد جوتا مورث ِسرور وفرحت۔۔

   اور خالص سرخ غیر معصفر میں اضطراب ِاقوال ہے اور صحیح  ومعتمد جواز،بلکہ علامہ حسن شرنبلالی نے فرمایا :  اس کا پہننا مستحب۔ حق یہ کہ احادیثِ نہی،سرخ معصفر کے بارے میں ہیں۔۔اور احادیثِ جواز،سرخ غیر معصفر میں،اور حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سرخ جوڑا پہننا بیان ِجواز کے لئے ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج22،ص194تا197، مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   مزید ایک مقام پر مرد کے لئے شوخ رنگ پہننے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:’’اور خالص شوخ رنگ بھی اسے (یعنی مرد کوپہننا)مناسب نہیں۔حدیث میں ہے:’’ایاکم والحمرۃ فانھا من زی الشیطان‘‘سرخ رنگ سے بچو،کیونکہ یہ شیطان کی ہیئت و وضع ہے۔ باقی رنگ فی نفسہ جائز ہیں ، کچے ہوں یا پکے۔ہاں!اگر کوئی کسی عارض کی وجہ سے ممانعت ہوجائے ،تو وہ دوسری بات ہے۔ جیسے ماتم کی وجہ سے سیاہ لباس پہنناحرام ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج22، ص 185،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   اور صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ کسم یا زعفران کا رنگا ہوا کپڑا پہننا مرد کو منع ہے، گہرا رنگ ہو کہ سرخ ہوجائے یا ہلکا ہو کہ زرد رہے ،دونوں کا ایک حکم ہے۔ عورتوں کو یہ دونوں قسم کے رنگ جائز ہیں۔ان دونوں رنگوں کے سوا باقی ہر قسم کے رنگ زرد، سرخ، دھانی، بسنتی، چمپئی، نارنجی وغیرہا مردوں کو بھی جائز ہیں،اگرچہ بہتر یہ ہے کہ سرخ رنگ یا شوخ رنگ کے کپڑے مرد نہ پہنے، خصوصاً جن رنگوں میں زنانہ پن ہو ،مرد اس کو بالکل نہ پہنے۔ ‘‘(بہارِ شریعت،ج3،ص415،مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سرخ لباس پہننا ثابت ہے اس پر بھی علماء نے یہ فرمایا ہے کہ وہ خالص سرخ نہیں بلکہ  سرخ دھاری دار لباس تھا ۔چنانچہ جامع ترمذی میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ،وہ فرماتے ہےکہ:’’رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی لیلۃ اضحیان،فجعلت انظر الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی القمر وعلیہ حلۃ حمراء ،فاذا ھو عندی احسن من القمر‘‘ترجمہ:میں نے (ایک دفعہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں دیکھا اورمیں کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرےکی طرف  دیکھتا اورکبھی  چاند کی طرف ،اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جبہ پہنے ہوئے تھے ،پس میرے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے زیادہ خوبصورت تھے۔(جامع ترمذی،ابواب الاستیذان ،باب ماجاء فی الرخصۃ فی لبس الحمرۃ للرجال،ج2، ص108، مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

   اس حدیث ِ مبارکہ کے تحت محدثین کرام رحمہم اللہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ :حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ دھاری دار تھا۔چنانچہ مرقاۃ المفاتیح میں علامہ عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے:’’ان المراد بها ثياب ذات خطوط ای لا حمراء خالصة وهو المتعارف في برود اليمن، وهو الذی اتفق عليه اهل اللغة ‘‘ترجمہ:اس جبہ سے مراد دھاری دار کپڑا ہے ،یعنی خالص سرخ مراد نہیں ،کیونکہ یمنی چادریں ایسی ہی ہوتی تھیں ،اس پر اہل ِ لغت کا اتفاق ہے ۔(مرقاۃ الفاتیح ،ج7،ص2785،مطبوعہ،دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم