Mard Ka Karhai Wala Coat Pehnna Kaisa ?

مردوں کا کڑھائی کیا ہوا کوٹ پہننا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12623

تاریخ اجراء: 02 جمادی الثانی 1444 ھ/26 دسمبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مردانہ کوٹ ہے، جس کے اوپرعام دھاگے کے ذریعہ کڑھائی کرکےچند پھول بنائے گئے ہیں،کیا مردوں کو اس طرح کا کوٹ پہننا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جبکہ اس کوٹ پر عام دھاگے کے ذریعے کڑھائی کر کے پھول یا نقش و نگار بنائے گئے ہیں  اور یہ کوٹ بھی مردانہ طرزکا ہے ، تو اس کوٹ کا پہننا مردوں کے لئے جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے ایسا لباس پہننا اور چادر اوڑھنا ثابت ہے جن پر کڑھائی کی گئی تھی اور صدیوں سے کڑھائی والے لباس کا پہننا لوگوں میں معروف ہے جس کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ہا ں کڑھائی کی وجہ سے  کوئی اور وجہ ممانعت مثلاً عورتوں سے مشابہت ، انگشت نمائی ، وغیرہ خرابیاں پائی جائیں، تو پھر یقینی طور پر ممانعت کا حکم ہوگا۔

    بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک حدیث پاک میں ہے ،فرمایا:”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی فی خمیصۃ لھا اعلام“یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کپڑے میں نماز ادا فرمائی جس میں نقش و نگار تھے۔(صحیح بخاری مع عمدۃ القاری، جلد 4،صفحہ 137،حدیث 373،مطبوعہ:بیروت)

    حدیث پاک میں موجود لفظ”خمیصۃ “کی وضاحت کرتے ہوئے فقیہِ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”خمیصۃ کا مادہ خمص سے ہے جس کے معنی پیٹ کا دبلا ہونا ہے، پتلی ریشمی یا اونی کالی منقش چادرکو کہتے ہیں “(نزھۃ القاری، جلد2،صفحہ 77،فرید بک سٹال، لاھور)

    اس حدیث پاک سے حاصل ہونے والے فقہی احکام بیان کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ عمدۃ القاری میں اور علامہ یوسف آفندی زادہ رحمۃ اللہ علیہ نجاح القاری میں فرماتے ہیں:”فیہ جواز لبس الثوب المعلم وجواز الصلاۃ فیہ“یعنی اس حدیثِ پاک سے نقش و نگار والے کپڑے پہننے کا جوازاور اسے پہن کر نماز پڑھنےکا جوا ز ثابت ہوتا ہے۔     (عمدۃ القاری، جلد 4،صفحہ 94،مطبوعہ:بیروت)

    نزھۃ القاری میں ہے:”منقش، پھولدار کپڑے پہن کر نماز پڑھنی جائز ہے“   (نزھۃ القاری، جلد2،صفحہ 78،فرید بک سٹال، لاھور)

    شرح معانی الاثار  و مختصر اختلاف العلماء میں ہے:”قال بشر :ورایت علی زید بن ثابت خمائص معلمۃ “یعنی حضرت بشر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:میں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو نقش و نگار والی چادریں اوڑھے ہوئے دیکھا۔(شرح معانی الآثار، جلد 4،صفحہ 61،مطبوعہ:بیروت)

    علما نےایسے لباس کا پہننا بھی جائز قرار دیا ہے جس میں ریشم کے ذریعہ نقش و نگار کیا گیا ہو، بشرطیکہ کسی جگہ چار انگل سے زائد نہ ہو،جب ایسا لباس پہننا جائز ہے ، تو پھر ایسا لباس پہننا بدرجہ اولی جائز ہوگا جس میں ریشم کے علاوہ کسی اور دھاگہ سےنقش و نگار یا کڑھائی کی گئی ہو۔ردالمحتار میں ہے:”حل الثوب المنقوش بالحریر تطریزا ونسجا اذا لم تبلغ کل واحدۃ من نقوشہ اربع اصابع“یعنی جس کپڑےمیں ریشم سے نقش بنایا گیا ہو کڑھائی کر کے یا بُنائی کر کے ،اس کاپہننا جائز ہے  بشرطیکہ ان نقوش میں سے کوئی ایک بھی چار انگل سے زائد نہ ہو۔(ردالمحتار، جلد9،صفحہ 582،مطبوعہ:بیروت)

    امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”چاندی سونے کے کام کے دو شالے، چادر کے آنچلوں ، عمامے کے پلؤوں، انگرکھے، کرتے ، صدری، مزرائی و غیرہا کی آستینوں ، دامنوں، چاکوں، پردوں، تولیوں، جیبوں پر ہو ، گریبان کا کنٹھا ، شانوں کے پان ترنج ، ٹوپی کا طرہ ، مانگ ، گوٹ پر کام ، جوتے کا کنٹھا ، گُپھا، کسی چیز میں کہیں کیسی ہی متفرق بوٹیاں  یہ سب جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی تنہا چار انگل کے عرض سے زائد نہ ہو۔۔۔۔فی الدر المختار :یحرم لبس الحریر علی الرجل الا قدر اصابع کاعلام الثوب۔ درِ مختار میں ہے کہ مرد کے لئے ریشم پہننا حرام ہے البتہ چار انگل کی مقدار ممنوع نہیں جیسے کپڑے پر نقوش وغیرہ بنا لینا“(فتاوی رضویہ، جلد22،صفحہ 133،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    ریشم سے کڑھائی کئے گئے کپڑوں کے متعلق علامہ شیخی زادہ رحمۃ اللہ علیہ مجمع الانھر میں فرماتے ہیں:”ان الناس یلبسون الثیاب وعلیھا الاعلام والطراز فی تلک الاعصار من غیر نکیر“یعنی بے شک لوگ ایسے کپڑے پہنتے ہیں جن پر نقش و نگار و کڑھائی ہوتی ہے،ان کپڑوں کے پہننے سے کسی نے منع نہیں کیا ۔ (مجمع الانھر، جلد 4،صفحہ 192۔193،مطبوعہ:کوئٹہ)

    محیطِ رضوی میں ہے:”ان العلم فی الثیاب معتاد من غیر نکیر من احد فیکون اجماعا“یعنی کپڑوں میں نقش و نگار معتاد ہے ،کسی کی طرف سے اس پر انکار نہیں ، تو (اس کے پہننے کے جواز پر) اجماع ہوگیا۔     (المحیط الرضوی، جلد5،صفحہ 19،مطبوعہ:بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم