Mard Ka Half Trouser, Half Pant Or Nekar Pehenna Kaisa?

مرد   کا  ہاف ٹراؤزر(Half  Trouser)،ہاف پینٹ(Half  Pant)یا نیکرپہننا کیسا ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7270

تاریخ اجراء:07صفر المظفر1445ھ/25اگست2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتےہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ آج کل گرمی کی وجہ سے کئی مرد  ہاف ٹراؤزر(Half Trouserہاف پینٹ(Half Pant)یا نیکرپہنتے ہیں،جس  میں ان  کے گھٹنے اور بعض کی رانیں بھی نظر آتی ہیں  اور وہ اسی طرح لوگوں میں گھوم پھِر رہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ تو ویسے ہی فیشن کے طور پر ایسا کرتے ہیں۔پوچھنا یہ ہے کہ  کیا لوگوں کے سامنے مرد اس طرح کا لباس  پہن سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مرد کا لوگوں  کے سامنے ایسا لباس پہن کر آنا کہ جس میں رانیں یا گھٹنے نظر آئیں، ناجائز،حرام اور گناہ ہے، یہ  لباس  گرمی سے بچنے کے لیے ہو یا بطورِ فیشن،بہر صورت حکم ایک ہی ہے۔نیز ایسے شخص کی رانوں یا گھٹنوں کی طرف قصداً دیکھنا بھی ناجائز اور گناہ ہے۔

   تفصیل اس کی یوں ہے کہ لباس اللہ پاک  کی طرف سے عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہےکہ اس  کے ذریعے انسان پردہ اور زینت اختیار کرنے کے ساتھ دیگر کئی فوائدبھی  حاصل کرتا ہے، لہٰذالباس کو خدا کا احسان سمجھتے  ہوئے اُس کے رحمت و برکت والے دین ،اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہی  استعمال کرنا چاہیے اور ہر اس انداز اور طریقے سے بچنا چاہیے،جو خدا کی مرضی کے خلاف ہے،مگر افسوس کہ آج کل معاشرے  میں جس طرح دیگر برائیاں دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہیں، وہیں لباس کے معاملے میں بھی مختلف حیلے بہانے یا فیشن و معیار کے نام پہ شرعی احکام کونظر انداز کیا جا رہا ہے،حالانکہ مَردوں کے لیے بھی اس بارے میں اسلامی اصول بہت واضح ہے اور وہ یہ ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک کا حصہ  ستر میں داخل ہے،یعنی مرد  کے لیے زوجہ کے علاوہ دیگر افراد سے اتنے  حصے کو چھپانا ضروری ہے اور بلا عذرِ شرعی دوسروں کے سامنے اسے کھولنا حرام اور اللہ جبّا ر و قہّار کی ناراضی کا سبب ہے۔نیزایسا کرنے والا شخص بے حیائی پھیلانے کے گناہ کا بھی مرتکب ہے،جس کے بارے میں قرآن مجید میں سخت وعید بیان کی گئی ہے۔پھر جتنے بھی لوگ اس کے ستر کی طرف دیکھ کر  بد نگاہی کا ارتکاب کریں گے،انہیں تو اس کا گناہ ملے گا ،لیکن اُن سب کے برابر ایسا لباس پہننے والے کو بھی ملے گاکہ اُن کے گناہ کا سبب یہی بن رہا ہے، لہٰذامرد  کے لیے بھی اس طرح کے  ہاف ٹراؤزر(Half Trouserہاف پینٹ (Half pant)یا نِیکردوسروں کے سامنے پہننے سے بچنا ضروری ہے۔اللہ پاک ہمیں شرعی احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

   حکمِ مسئلہ سے متعلق قرآنی آیات:

   لباس کے بارے میں  اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِیْشًاترجمہ:اے آدم کی اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اتارا جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو)زیب و زینت ہے۔(پارہ8،سورۃ الاعراف،آیت 26)

   بدنگاہی سے بچنے اور پردہ کرنے کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَترجمہ:مسلمان مَردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔(پارہ18،سورۃ النور،آیت30)

   اس آیت کے تحت تفسیرصراط الجنان میں ہے:’’اس آیت میں مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور جس چیز کو دیکھنا جائز نہیں ،اس پر نظر نہ ڈالیں۔۔﴿وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْآیت کے اس حصے کا ایک معنی یہ ہے کہ زنا اور حرام سے بچیں۔دوسرامعنی یہ ہے کہ اپنی شرم گاہوں اور اُن سے متّصل وہ تمام اعضاء جن کا ستر ضرور ی ہے، انہیں  چھپائیں  اور پردے کا اہتمام رکھیں۔(تفسیرصراط الجنان،تحت ھذہ الآیہ،ج6،ص616تا618،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اور بے حیائی پھیلانے والوں کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ترجمہ:وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ،ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(پارہ18،سورۃ النور،آیت19)

   مرد کا ستر کہاں سے کہاں تک ہے؟اس بارے میں احادیث:

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ما اسفل من سرته الى ركبتيہ من عورته ‘‘ ترجمہ:ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنوں سمیت حصہ مرد کا ستر یعنی چھپانے کی چیز ہے۔(مسند احمد بن حنبل،ج11،ص369،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت)

   حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی،وہ فرماتے ہیں :’’مر رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم على رجل وفخذه خارجة، فقال:غط فخذك، فان فخذ الرجل من عورته‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے،اس کی ران کھلی ہوئی تھی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنی ران کو چھپا لو،کیونکہ مرد کی ران اس کے ستر میں سے ہے۔(مسند احمد بن حنبل،ج4،ص295،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت)

   یونہی حضرتِ جرہد رضی اللہ تعالی عنہ(جو اصحابِ صفہ میں سے ہیں)فرماتے ہیں:’’جلس رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عندنا وفخذی منكشفة فقال:اما علمت ان الفخذ عورةترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میری ران کھلی ہوئی تھی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کیا تم نہیں جانتے کہ ران ستر یعنی چھپانے کی چیز ہے۔(سننِ ابی داؤد،ج4،ص40،مکتبۃ العصریہ،بیروت)

   مرد کا ستر کہاں سے کہاں تک ہے؟اس بارے میں فقہی جزئیات:

   فقہ حنفی کی مشہور و معروف کتاب’’الہدایہ‘‘ میں ہے:’’وعورة الرجل ما تحت السرة الى الركبة ، لقوله عليه الصلاة والسلام :’’عورة الرجل ما بين سرته الى ركبته ‘‘ ويروى’’ما دون سرته،حتى تجاوز ركبته‘‘ترجمہ:اور مرد کا ستر ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ مرد کا ستر ناف کی نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک ہے۔اور یوں بھی مروی ہے کہ مرد کا ستر ناف کے نیچے سے شروع ہوتا ہے،یہاں تک کہ گھٹنوں سے تجاوز کر جائے۔(الھدایہ،ج1،ص45، دار احیاء التراث،العربی)

   اورصدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’مرد کے ليے ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک عورت ہے، یعنی اس کا چھپانا فرض ہے۔ ناف اس میں داخل نہیں اور گھٹنے داخل ہیں۔ اس زمانہ میں بہتیرے ایسے ہیں کہ تہبند یا پاجامہ اس طرح پہنتے ہیں کہ پیڑو کا کچھ حصہ کھلا رہتا ہے، اگر کُرتے وغیرہ سے اس طرح چھپا ہو کہ جلد کی رنگت نہ چمکے،تو خیر، ورنہ حرام ہے اور نماز میں چوتھائی کی مقدار کھلا رہا،تو نماز نہ ہوگی اور بعض بے باک ایسے ہیں کہ لوگوں کے سامنے گھٹنے، بلکہ ران تک کھولے رہتے ہیں، یہ بھی حرام ہے اور اس کی عادت ہے،تو فاسِق ہیں۔ ‘‘(بھارِ شریعت،ج1،ص481،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   دوسرے کے ستر کی طرف قصداً دیکھنا جائز نہیں،اس بارے میں احادیث:

   حضرتِ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’لا ينظر الرجل الى عورة الرجل ولا المراة الى عورة المراة‘‘ترجمہ:مرد بھی مرد کے ستر کی طرف نہ دیکھے اور نہ ہی عورت عورت کے ستر کی طرف دیکھے۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ،ج1،ص101،مطبوعہ ریاض)

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’لعن اللہ الناظر والمنظور اليه‘‘ترجمہ:بدنگاہی کرنے والے اور کروانے والے،دونوں پر اللہ کی لعنت ہے۔(شعب الایمان،ج10،ص214،مطبوعہ ریاض)

   حضرتِ علی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ قال لي النبي صلى اللہ عليه وسلم:لا تبرز فخذك ولا تنظر الى فخذ حي  ولا ميت‘‘ترجمہ:اپنی رانیں مت کھولنا اور نہ زندہ کی ران کی طرف دیکھنا اور نہ ہی مردہ کی ران کی طرف۔(سنن ابن ماجہ،ج1،ص469،دار احیاء الکتب العلمیہ)

   اس کے تحت مفتی احمد یار خان رنعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ران ستر ہے،اس سے آج کل کے نیکر پہننے والے عبرت پکڑیں، جن کی آدھی رانیں کھلی ہوتی ہیں اور وہ بے تکلف لوگوں میں پھرتے ہیں، اﷲ تعالی ایمانی غیرت نصیب کرے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح،ج5،ص18،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   بدنگاہی کرنے والے کا گناہ ،کروانے والے کو بھی ملے گا،اس پر حدیث:

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا ومن دعاالی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا‘‘ترجمہ:جو کسی کو سیدھے راستے کی طرف بلائے، تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے،اُن سب کے برابر اس (بلانے والے )کو بھی ثواب ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی اور جو برائی کی طرف بلائے، تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے ،ان سب کے برابر اس کو بھی گناہ ملے گا ،اور پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔(صحیح المسلم ،کتاب العلم ، ج2،ص341،مطبوعہ  کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم