Mard Ka Aurat Ko Ya Aurat Ka Mard Ko Makeup Karna Kaisa Hai ?

مرد کا عورت کو یا عورت کا مرد کو میک اپ کرنا کیسا ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی  نمبر:79

تاریخ  اجراء: 19جمادی الاول1439ھ06فروری2018ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بیوٹی پارلر میں اجنبی مرد،عورت کو اور عورت، اجبنی مرد کو تیارکرے، تو شرعاًاس کا کیا حکم ہے؟نیز اس سے حاصل ہونے والی کمائی کا کیا حکم؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   شریعتِ مطہرہ نے عورت کو اجنبی مرد سے اور اسی طرح مرد کو اجنبیہ عورت سے پردے کا حکم دیا ہے اوران دونوں کے ایک دوسرے کو بلاضرورتِ شرعیہ چھونے کو حرام فرمایا ہے اوربیوٹی پارلر میں بے پردگی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کےجسم کوچھونا بھی پایا جاتا ہے، جوسخت ناجائز وحرام ہےاور کئی مرتبہ ان دونوں میں تنہائی بھی پائی جاتی ہے، جو مزید گناہ کا باعث ہے،الغرض یہ کام کئی ناجائز وحرام کاموں کا مجموعہ ہے، ایسا کرنے کی شریعت میں ہرگز ہر گز اجازت نہیں،البتہ اس پرملنے والی اجرت حرام نہیں ہے،کیونکہ اس اجارے کےناجائز وحرام ہونے کی وجہ نفسِ اجارہ یا شرائطِ صحتِ اجارہ نہیں بلکہ ایک امرِ خارج ہے اور وہ امرِخارج بے پردگی، بدن کو چھونا اور خلوت ہونا وغیرہ ہے،لہٰذا مرد کااجنبی عورت کواور اجنبی عورت کا مرد کوتیار کرنے پر ملنے والی اجرت فی نفسہ اجارے کے  فقہی طور پر صحیح  ہونے کی وجہ سے جائزہے،یاد رہےکہ بھنویں بنانافی نفسہ ناجائز وحرام کام ہےاور اس پر ملنے والی اجرت بھی ناجائزہے،البتہ اگر اتنی زیادہ بڑھ گئیں کہ دیکھنےمیں بُری لگیں، تو حدِاعتدال تک بنوانے کی اجازت ہے۔

   اجنبی مرد کا عورت کو دیکھنے کے بارے میں حدیث شریف میں ہے:”لعن الله الناظر والمنظور إليه“ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ دیکھنے والے پر اور اُس پر جس کی طرف نظر کی گئی ،اللہ تعالیٰ لعنت فرماتاہے (یعنی دیکھنے والا جب بلاعذر قصداً دیکھے اور دوسرا اپنے کو بلاعذر قصداً دکھائے)۔(شعب الایمان، ج10، ص214، مطبوعہ ریاض)

   اجنبیہ عورت کو چھونے کے حرام ہونے کے بارے میں حدیث پاک میں ہے:”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لأن يطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمس امرأة،لا تحل له ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے، تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے، جو اس کے لیے حلال نہیں۔(المعجم الکبیر،ابوالعلاء یزید بن عبداللہ ۔۔۔الخ،ج20،ص211،حدیث486،مطبوعہ قاھرہ)

   اجنبیہ عورت سے خلوت کے حرام ہونےکے بارے میں حدیث پاک میں ہے:”عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لایخلون رجل بامر أۃ الا کان ثالثھما الشیطن“یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کوئی مرد کسی )غیر محرم( عورت کے ساتھ اکیلا نہیں بیٹھتا، مگر یہ کہ تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی، ج1،ص351، مطبوعہ لاھور)

   میک اَپ کرنے پر فی نفسہ اجارہ کے جائز ہونےاور اس پر ملنے والی اجرت کے جوازکے بارے میں درمختار میں ہے: ”وجاز إجارة الماشطة لتزين العروس“ترجمہ: بناؤ سنگھار کرنے والی عورت سے دُلہن سجانے کے لیے اجارہ کرناجائز ہے۔(درمختار مع ردالمحتار، ج9، ص106، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’تجوز الاجارۃ اذا کانت مؤقتۃ أو کان العمل معلوماً ولم ینقش التماثیل علی وجہ العروس ویطیب لھا الاجر لان تزیین العروس مباح‘‘یعنی(بناؤسنگھارکرنےوالی عورت سے)اجارہ کرنا جائز ہےجبکہ اس کا وقت یا کام معلوم ہواوروہ دلہن کے چہرے پر تصویریں نہ بنائےاوراس کے لیےاجرت پاک ہے،کیونکہ دلہن کو سجانا ،جائز کام ہے۔(فتاوی عالمگیری، ج4، ص526، مطبوعہ کوئٹہ)

   موسوعہ کویتیہ میں ہے:”وصرح الحنفية والشافعية بجواز استئجار الماشطة لتزين العروس ۔۔۔لأن أصل التزين مشروع، والإجارة على المنافع المشروعة صحيحة “ترجمہ:بناؤ سنگھار کرنے والی عورت سے دلہن سجانے کے لیے اجارے کے جائز ہونے پر  فقہائے احناف اور شوافع نے صراحت کی ہے،کیونکہ دلہن سجانا مشروع فعل ہے اور اجارہ مشروع منافع پر صحیح ہے۔   (موسوعہ کویتیہ،ج11،ص276)

   فی نفسہ کام کے جائز ہونے پر اجرت کے جائز ہونے کے بارے میں مبسوط سرخسی میں ہے:”يكره له أن يستأجر امرأة حرة۔۔۔يستخدمها ويخلو بها،لقوله صلى الله عليه وسلم”لا يخلون رجل بامرأة ليس منها بسبيل فإن ثالثهما الشيطان“ولأنه لا يأمن من الفتنة على نفسه أو عليها إذا خلا بها، ولكن هذا النهي لمعنى في غير العقد فلا يمنع صحة الإجارة ووجوب الأجر إذا عمل كالنهي عن البيع وقت النداء“ترجمہ:مرد کے لیے(اجنبی) آزاد عورت کو اپنی خدمت کے لیے اجارے پر رکھنا مکروہ ہےاس حال میں کہ مرد کی اس عورت کے ساتھ تنہائی ہو،کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کوئی مرد کسی نامحرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہو،توان دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتاہے“کیونکہ تنہائی میں مردوعورت پر فتنہ کا خوف ہے، لیکن یہ ممانعت اصلِ عقد میں نہیں بلکہ اس سے ہٹ کر کسی چیز (یعنی ناجائز خلوت) کی وجہ سے ،لہٰذا کام کرنے کی صورت میں یہ ممانعت اجارے کے صحیح ہونے اور اجرت کے واجب ہونےمیں رکاوٹ نہیں بنے گی،جیسا کہ جمعہ کی اذان اول سے ختمِ نمازِ جمعہ تک خریدوفروخت کرنا(اگرچہ) جائز نہیں(لیکن یہ بیع فاسدوباطل نہیں بلکہ درست ہے )۔(مبسوط سرخسی،ج16،ص59،مطبوعہ کوئٹہ)

   تنہائی میں عورت سے خدمت لینے پر اجرت کے جائز ہونے کی علت بیان کرتے ہوئےامام برہان الدین محمود بن صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”لكن الإجارة جائزة،لأنها عقدت على الاستخدام وأنه مباح“ترجمہ: لیکن یہ اجارہ جائز ہے،کیونکہ عقدِاجارہ خدمت لینے پرہے اور خدمت پر اجارہ کرنا، جائز ہے۔(محیط برھانی، ج11، ص301، مطبوعہ ادارۃ القرآن)

   حرام ذریعہ ہونے کے باوجود اُجرت کے جائز ہونے کے بارے میں سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ  میں لکھتے ہیں:”بہر حال نفس اجرت کہ کسی فعل حرام کے مقابل نہ ہو، حرام نہیں، یہی معنی ہیں اس قول حنفیہ کے کہ ”یطیب الاجر وان کان السبب حراماکما فی الاشباہ وغیرھا فاحفظ فانہ علم عزیز فی نصف سطر“ترجمہ:اجرت طیب ہوگی اگرچہ سبب حرام ہے، جیسا کہ الاشباہ وغیرہ میں ہے۔ اس کو محفوظ کرلویہ آدھی سطر میں نادر علم ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج19،ص501،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاھور)

      مزید لکھتے ہیں:”اصل مزدوری اگر کسی فعل ناجائز پر ہو، سب کے یہاں ناجائزاور جائز پر ہوتو، سب کے یہاں جائز ۔“ (فتاوی رضویہ ،ج23،ص507،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

   بھنویں ترشوانے کے حرام ہونے کے بارے میں صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”اسی طرح گودنے والی اور گدوانے والی یا ریتی سے دانت ریت کر خوبصورت کرنے والی یا دوسری عورت کے دانت ریتنے والی یاموچنے سے اَبرو کے بالوں کو نوچ کر خوبصورت بنانے والی اور جس نے دوسری کے بال نوچے، ان سب پر حدیث میں لعنت آئی ہے۔“(بھار شریعت ،ج3،ص596،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی )

   اگر بھنویں اتنی زیادہ بڑھ گئیں کہ دیکھنے میں بُری لگیں، توحدِاعتدال تک ترشوانے کی اجازت کے بارے میں صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”بھوں کے بال اگر بڑے ہوگئے،تو ان کو ترشواسکتے ہیں۔“(بھار شریعت ،ج3،ص585،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی )

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم