Makkah Mukarramah Aur Madinah Munawwarah Mein Mustaqil Rehaish Rakhna Kaisa?

 

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مستقل رہائش رکھنا کیسا ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9017

تاریخ اجراء: 22 محرم الحرام 1446ھ / 29جولائی  2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ مدینہ منورہ میں مستقل رہائش رکھنے کے متعلق کیا شرعی حکم ہے؟ ہم نے ایک چینل پر کسی معتبر عالم دین سے  اِس کی ممانعت سنی ہے، جبکہ دوسری طرف یہ روایت بھی موجود ہے کہ تم میں سے جس سے ہو سکے، وہ مدینہ منورہ  میں مرے،کہ یہاں مرنے والوں کی میں شفاعت کروں گا۔ (الحدیث)دونوں میں کیا تطبیق ہو گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   انسانی طبیعت یہ ہے کہ کسی جگہ مستقل سکونت اختیار کرنے سے  گزرتے وقت کے ساتھ دل میں اُس جگہ کی اہمیت کم ہوتی جاتی ہے، اِسی مزاجِ انسانی کے سبب فقہائے کرام نے یہ حکم ارشاد فرمایا کہ مکہ ومدینہ میں مستقل رہائش  اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے، کیونکہ مستقل  رہائش کی صورت میں وہاں کے آداب کی پرواہ ، قلبی محبت، اُن شہروں کی عظمت  اور اُس عظیم بارگاہ سے لگاؤ میں  کمی آئے گی، نیز مکہ مکرمہ میں ایک گناہ ایک لاکھ گناہ کے برابر ہے، لہذا اِن تمام حکمتوں کے پیشِ نظر فقہائے کرام نے مطلقاً ممانعت کا حکم صادر فرمایا۔

   جہاں تک حدیث مبارک میں مدینہ شریف میں موت اور ضمناً اُس کے متعلقات یعنی اقامت اور توطُّن کا حکم دیا گیا، وہاں بھی یہ اجازت ان لوگوں کے لیے ہے،جو یہاں رَہ کر اِس مقامِ عظیم کا حق ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں، وہ یہاں رہیں اور یہیں پر انتقال کریں اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی  استطاعت بہت ہی کم افراد کو ہوتی ہے اور فقہی ضابطہ ہے کہ ”قلیل“ پر نظر کرتے ہوئے احکامِ فقہیہ کی بنیاد نہیں رکھی جاتی، لہٰذا  فقہائے کرام نے مطلقاً منع کا حکم ہی دیا۔ البتہ جن  بزرگانِ دین نے مدینہ منورہ میں مستقل سکونت  اختیار فرمائی، اُن کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اُنہوں نے یقیناً وہاں رَہ کر بھی اپنے سوزِ عشق اور احترام وتعظیم  میں کسی طرح کمی نہیں آنے دی،  جیسا کہ اُن کے واقعات وحالات سے واضح ہے، لہذا اُن کے حق میں حکمِ ممانعت بھی نہیں تھا۔

روایت اور اُس کی شرح:

   مدینہ منورہ میں انتقال پر شفاعتِ مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی بشارت ہے، چنانچہ امام ترمذی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:279ھ/892ء) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’من استطاع أن يموت بالمدينة فليمت بها، فإني أشفع لمن يموت بها‘‘ ترجمہ:جس سے ہو سکے کہ وہ مدینہ منورہ میں انتقال کرے، تو اُسے چاہیے کہ وہ  وہیں انتقال کرےکہ جو مدینہ منورہ میں وفات پائے گا، میں اُس کی شفاعت کروں گا۔(سننِ الترمذی، جلد06،باب ما جاء فی فضل المدینۃ،  صفحہ203،دار الغرب الاسلامی، بیروت)

   اس روایت کے تحت نور الدین علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1014ھ/1605ء) نے لکھا:’’لذا قيل الأفضل لمن كبر عمره أو ظهر أمره بكشف ونحوه من قرب أجله ،  أن يسكن المدينة ليموت فيها‘‘ ترجمہ:اِسی لیے کہا گیا کہ جس کی عمر زیادہ ہو چکی ہو یا کشف وغیرہ سے موت کا قریب ہونا معلوم ہو جائے، تو وہ مدینہ منورہ میں سکونت رکھ لے تا کہ وہیں پر انتقال کرے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد05،کتاب الحدود،  صفحہ 1884، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، لبنان)

   مگررہائش جملہ آداب ِحرمین اور دیگر شرائط کے ساتھ مشروط ہے، چنانچہ علامہ عبدالرؤف مُناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1031ھ/1621ء) لکھتےہیں:’’أخذ منه حجة الإسلام ندب الإقامة بها مع رعاية حرمتها وحرمة ساكنيها وقال ابن الحاج: حثه على محاولة ذلك بالاستطاعة التي هي بذل المجهود في ذلك‘‘ ترجمہ:اِس روایت سے حجۃ الاسلام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مدینہ منورہ میں سکونت کے استحباب کو اخذ کیا، مگر وہ سکونت مدینہ منورہ اور اُس کے رہائشیوں کے آداب واحترام بجالانے سے مشروط ہے۔ علامہ ابن الحاج رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے مدینہ منورہ میں انتقال کرنے کی کوشش پر ابھارا ضرور ہے، مگر اُسے ایسی  استطاعت سے مشروط رکھا ہے، جس کے لیے خوب ہمت اور کوشش صَرف کرنے کی ضرورت ہے۔(فیض القدیر، جلد06، صفحہ 53، مطبوعہ  دار المعرفہ، بیروت )

مستقل رہائش رکھنے  پر فقہاء کا کلام:

   امام ابنِ ہُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:861ھ/1456ء) لکھتےہیں:’’اختلف العلماء في كراهة المجاورة بمكة وعدمها۔۔۔ذهب أبو حنيفة ومالك رحمهما اللہ إلى كراهتها۔۔ھذا  أحوط لما في خلافه من تعريض النفس على الخطر إذ طبع الإنسان التبرم والملل من توارد ما يخالف هواه في المعيشة وزيادة الانبساط المخل بما يجب من الاحترام لما يكثر تكرره عليه ومداومة نظره إليه۔۔۔وعلى هذا فيجب كون الجوار في المدينة المشرفة كذلك، فإن تضاعف السيئات أو تعاظمها وإن فقد فيها فمخافة السآمة وقلة الأدب المفضي إلى الإخلال بواجب التوقير والإجلال قائم. وهو أيضا مانع إلا للأفراد ذوي الملكات فإن مقامهم وموتهم فيها هي السعادة الكاملة۔۔۔ أخرج الترمذي وغيره عن ابن عمر عن النبي صلى اللہ عليه وسلم «من استطاع أن يموت بالمدينة فليمت فإني أشفع لمن يموت بها ‘‘ ترجمہ:علمائے کرام کا مکہ مکرمہ میں مستقل سکونت رکھنے کے مکروہ ہونے یا نہ ہونے میں  اختلاف ہے۔ امام اعظم اور امام مالک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہماکا مسلک یہ ہے کہ مستقل سکونت مکروہ ہے۔ یہ قول نہایت محتاط  ہے، کیونکہ اِس کے برخلاف یعنی عدمِ کراہت کا قول کہنے میں اپنے آپ کو خطرے پر پیش کرنے والی بات ہے، کیونکہ زندگی میں مسلسل انسانی خواہشات کی مخالفت کرنے سے قلبی ملال اور پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ اِسی طرح مستقل رہائش کی صورت میں زیادہ بےتکلفی سامنے آئے گی، جو  قلبی احترام میں خلل پیدا کرے گی، کیونکہ وہ بار  بار حرم مقدس میں آئے گا، کثرت اور تسلسل سے  زیارتِ کعبہ مشرفہ کرے گا۔اِس ساری گفتگو کی بنیاد پر مدینہ منورہ میں مستقل سکونت کا حکم بھی یہی ہے۔ اگرچہ مدینہ طیبہ میں ایک گناہ کا کئی گُنا ہونا مفقود ہے،  لیکن پھر بھی وہاں مسلسل رہائش رکھ کر اُ کتاہٹ  اور ادب میں کمی آنے کا خوف موجود ہے،  جو کہ وہاں کے احترام، توقیر اور عظمت وجلالت میں کمی پیدا کرے گا، لہذا جب یہ علت قائم ہے، تو  یہ بھی  ”مجاورت“ سے مانع ہونے کو کافی ہے۔(فتح القدیر، جلد03، المقصد الثانی فی المجاورۃ، صفحہ178، مطبوعہ مصر)

   مگر پھر قولِ کراہت سے استثناء کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’إلا للأفراد ذوي الملكات فإن مقامهم وموتهم فيها هي السعادة الكاملة۔۔۔أخرج الترمذي وغيره عن ابن عمر عن النبي صلى اللہ عليه وسلم «من استطاع أن يموت بالمدينة فليمت فإني أشفع لمن يموت بها‘‘ ترجمہ:ہاں وہ فرشتہ صفت افراد کہ جو وہاں کا حقیقی احترام مسلسل رکھ سکیں، اُن کا وہاں رہائش رکھنا اور وہیں انتقال کرنا، یقیناً عظیم اور کامل سعادت ہے۔امام ترمذی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   وغیرہ نے حضرت ابنِ عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت کیا: جس سے ہو سکے کہ وہ مدینہ منورہ میں انتقال کرے، تو اُسے چاہیے کہ وہ  وہیں انتقال کرے کہ جو مدینہ منورہ میں وفات پائے گا، میں اُس کی شفاعت کروں گا۔(فتح القدیر، جلد03، المقصد الثانی فی المجاورۃ، صفحہ179، مطبوعہ مصر)

   یہاں غور کیجیے کہ علامہ ابنِ ہمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   نے ”حدیثِ ترمذی“ کو بالخصوص اُن لوگوں کے حق اور تائید  میں نقل کیا، جو وہاں رَہ کر آداب کا خیال رکھ سکیں، مگر پھر اِس استثناء کے بعد خود ہی حقیقت حالِ کی منظر  کشی کرتے ہوئے لکھا:’’لكن الفائز بهذا مع السلامة من إحباطه أقل القليل، فلا يبنى الفقه باعتبارهم ولا يذكر حالهم قيدا في جواز الجوار ‘‘ ترجمہ:لیکن گناہوں کی دلدل میں پھنسنے اور سلامتی کے ساتھ کامیاب ہونے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں اور تھوڑے افراد کو بنیاد بنا کر فقہی احکامات مرتب نہیں ہوتے اور نہ ہی مجاورت کا جواز ثابت  کرنے کے لیے اُن مستثنیٰ لوگوں کے احوال  کو بطورِ قیدِ احترازی بیان کیا جائے گا۔ (فتح القدیر، جلد03، المقصد الثانی فی المجاورۃ، صفحہ179، مطبوعہ مصر)

بالآخر مسئلہ شرعیہ کا نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں:’’وكل من هذه الأمور سبب لمقت اللہ تعالى، وإذا كان هذا سجية الشر فالسبيل النزوح عن ساحته، وقَلَّ من يطمئن إلى نفسه في دعواها البراءة من هذه الأمور إلا وهو في ذلك مغرور‘‘ ترجمہ:یہ تمام چیزیں (قلتِ ادب واحترام وغیرہا) اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہیں اور جب ایسی طبیعتِ شر،  بشری تقاضوں میں شامل ہے، تو بچنے کی صورت فقط اس میدان سے نکل جانا  ہی ہےاوران امور سے بچنے کا دعویٰ کرنے والے بہت تھوڑے ہیں اور جو وہ ”تھوڑے“ ہیں، درحقیقت وہ نفس کے دھوکے میں ہیں۔ (فتح القدیر، جلد03، المقصد الثانی فی المجاورۃ، صفحہ178، مطبوعہ مصر)

   ”صاحبِ فتح القدير“ کی اس مکمل بحث پر تبصرہ کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) نے لکھا:’’وھو کما تری من الحسن بمکان فقد افادوا جاد، اثابہ الجواد تبارک وتعالی، وابان ان الامر  وان کان فی الواقع علی جواز الجوار بشرط التوثیق وھو التوفیق عندالتحقیق کما نص علیہ وصححہ فی شرح اللباب وجزم بہ فی الدرالمختار الا ان اھل التوثیق لما کانوا اقل قلیل واحکام الفقہ انما تبتنی علی الغالب الکثیر دون النادر الیسیر فالوجہ ھواطلاق المنع کما ھو مذھب الامام رضی ﷲ تعالی عنہ و لذا اخذ الفاضلون المحشون العلامۃ الحلبی ثم الطحطاوی ثم الشامی کلھم فی حواشی الدر، فی اشتراطہ التوثیق حیث نقلوا کلام الفتح، ثم قالوا وھو وجیہ، فکان ینبغی للشارح ان ینص علی الکراھۃ ویترک التقلید بالتوثیق‘‘ ترجمہ:آپ نے دیکھا کہ اِس جگہ محقق نے کتنا خوبصورت کلام فرمایا ہے۔ نہایت ہی عمدہ  اور جید اِفادات فرمائے ہیں۔ خدائے جَوَّاد اُنہیں خوب اجر عطا فرمائے۔انہوں نے واضح فرمادیا کہ اگرچہ مجاورت کا معاملہ جائزہے،مگر بشرط ِتوثیق جو کہ بصورت ِتوفیق الٰہی ہی حاصل ہوسکتی ہے،جیسا کہ انہوں نے تصریح کی، نیز ”شرح اللباب“ میں اس کو صحیح کہا، ”الدرالمختار“ میں اسی پر جزم کا اظہار کیا،  مگر چونکہ اہل ِتوثیق بہت ہی کم ہوتے ہیں اور احکام فقہ کی بنیاد نادر  اور قلیل پر نہیں ہوتی،  بلکہ غالب کثیر پر ہوتی ہے،  تو اب مطلقاً منع کہنا ہی بہتر ہے،  جیساکہ امام اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا مذہب ہے، یہی وجہ ہے کہ ”درمختار“ پر حواشی لکھنے والے فاضل علماء  مثلاً: علامہ حلبی،علامہ طحطاوی اور پھر علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم  سب نے ”فتح القدیر “کی عبارت نقل کرکے ”توثیق“کی شرط لگائی اور پھر لکھا:یہی قول بہتر ہے،  لہذا شارح (علامہ حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ)کو چاہیے تھا کہ وہ کراہت پر تصریح کرتے اور  توثیق کی قید کو چھوڑ دیتے۔(یعنی توثیق کی قید لگائے بغیر مطلقاً کراہت کا قول بیان کرتے۔)‘‘(فتاوٰی رضویہ، جلد10، صفحہ695، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اپنی تحقیق کے آخر میں  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نتیجہ بیان کرتے ہوئے لکھا:’’بالجملۃ فالحکم عدم جواز الجوار اصلا فی زماننا‘‘ترجمہ:تمام تحقیق کا ایک جملے میں حاصل یہ ہے کہ  ہمارے زمانے میں مکہ ومدینہ زَادَھما اللہُ شرفاً و تعظیماً  میں مستقل سکونت اختیار کرنے کی اجازت نہیں۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد10، صفحہ698، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اِس مسئلے کی مزید تحقیق اور تفصیل جاننے کے لیے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے  رسالے”صَیْقَلُ الْرَّیْن عَن  اَحْکامِ مُجاوَرَۃِ الحَرَمَیْن  کا مطالعہ کیجیے۔ یہ رسالہ فتاویٰ رضویہ کی دسویں جلد میں موجود ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم