Laila Majnu Ka Waqia Durust Hai Ya Nahi ?

لیلی اور مجنوں کا واقعہ درست ہے یا نہیں؟

مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-2392

تاریخ اجراء: 11رجب المرجب1445 ھ/23جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہم اکثر واقعات میں اورکبھی علماء کے بیان میں بھی بطورِ مثال لیلی  اور مجنوں کا واقعہ  اور ان کی محبت کا تذکرہ سنتے ہیں،اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ کیا یہ لیلی ، مجنوں کا ہونا حقیقی ہے یا صرف فرضی خاکہ ہے جو سمجھنانے کے لیے بتایا جاتا ہے؟اور اگر حقیقی ہے،تو یہ تاریخی لحاظ سے کب ہوئے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   لیلی اور حضرت "مجنوں" رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حقیقت میں موجود تھے اورحضرت مجنوں (جن کا اصل نام قیس بن الملوح  العامری تھا)یہ اللہ کے ولی تھے،حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ جیسی جلیل القدر ہستی نے ان کو اکابر اولیائے کرام میں شمار فرمایا اور فرمایا کہ انہوں نے اپنا معاملہ عشقِ لیلی کے ذریعے چھپا رکھا تھا،امام اہلسنت  علیہ الرحمۃ نے ان کا کلمۂ"ترحّم "یعنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ذکر کر کے لیلی کے حوالے سے ان کی محبت کا ایک واقعہ ذکر فرمایا ہے(جیسا کہ نیچے جزئیہ میں آرہا ہے)،یہ عربیوں سے تعلق رکھنے والے تھے،تاریخی لحاظ سے یہ کب سے ہیں،متعین طور پر یہ تو معلوم نہ ہو سکا،البتہ!  بعض  نےان کو پہلی صدی ہجری کا لکھا  اور ان کا تذکرہ تیسری صدی ہجری سے پہلے کی کتابوں سے بھی ملتا ہے،بہر حال ان کا تذکر ہ صرف افسانوی یا فرضی نہیں،بلکہ حقیقت ہے،تاہم یہ بات بھی یا د رہے!ان کے متعلق بہت سے غلط،من گھڑت   اور غیر شرعی واقعات مشہور کر دئیے گئے،جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اُن واقعات اور باتوں کی طرف توجہ نہ دی جائے،نہ ان کو سنا جائے اور نہ ہی آگے بیان کیا جائے۔

    چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے!

   عمرو بن بحر الکنانی مشہورعربی دان"جاحظ "(متوفی:255ھ)نے اپنی کتاب" الحيوان " میں ذکر کیا:مجنون بني عامر:قيس بن الملوح بن مزاحم العامري، شاعر غزل، من المتيمين، لم يكن مجنونا،وإنما لقب بذلك لهيامه في حب ليلى بنت سعد، توفي 68 هـ۔ (الحيوان ، جلد 7، صفحه 478، مطبوعه دار الكتب العلميه ، بیروت )

   خیر الدین علامہ زرکلی علیہ الرحمۃ  کی" الاعلام " میں ہے ” مَجْنُون لَيْلي(- 68 هـ) قيس بن الملّوح بن مزاحم العامري: شاعر غزل، من المتيمين، من أهل نجد. لم يكن مجنونا وإنما لقب بذلك لهيامه في حب " ليلى بنت سعد "   (الأعلام، 5/208،  مطبوعه دار العلم للملايين)

   ابوعبداللہ علامہ محمدبن اسحاق مکی فاکہی(متوفی 272ھ)نے " أخبارُمكة "میں ان کے حج پر جانے کے حوالے سے ذ کر کیا۔  (اخبار مکۃ ، جلد 4، صفحہ 272 ،طبع  مکبتہ الاسدی)

   یونہی امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی  "احیاء العلوم"میں بھی  ان کا اشعار کی صورت میں تذکر ہ موجودہے۔

   علامہ  ملا علی قاری علیہ الرحمۃ نے ایک  حدیث پاک کی شرح میں ان کا تذکرہ کیا،چنانچہ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:وفي توافق محنتهما إيماء إلى كمال محبتهما على وفق خروج الدم من بدن المجنون العامري وقت افتصاد ليلى۔ ( مرقاۃ المفاتیح ، جلد 9، صفحہ6 385 ،مطبوعه دار الفكر)

   اوپر ذکرکردہ مرقاۃ کی عبارت کا مفہوم،مراۃ المناجیح میں کچھ  ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوا :یہاں مرقات نے فرمایا کہ دردِ سر  اَصْل میں حضور صلی الله علیہ وسلم کو تھا اس کا اثر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاپرہواکہ اس دردکی چمک ان کے سر شریف میں محسوس ہوئی،کمال محبت کی وجہ سے، جیسے فصد لی لیلی نے ،اور خون نکلا مجنون عامری کے جسم سے۔ (مرآۃ المناجیح،ج 8،ص 257،قادری پبلشرز،لاہور)

   اور امام اہلسنت  رحمۃ اللہ علیہ نے "حضرت مجنوں "کہہ  کر کلمہ"ترحّم " ساتھ ذکر کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:اورمحب کومحبوب کی ہرشے عزیزہوتی ہے یہاں تک کہ اس کی گلی کاکتابھی۔ حضرت مولاناقدس سرہ مثنوی شریف میں حضرت مجنوں رَحِمَہ اﷲُ تعالیٰ کی حکایت تحریر فرمائی کہ کسی نے ان کودیکھا کمالِ محبت کے طورپر ایک کتے کے بوسے لے رہے ہیں،اعتراض کیا کہ کتانجس ہے چنیں ہے،چناں ہے۔ فرمایا تونہیں جانتا :کاین طلسم بستہ مولٰی ست ایں پاسبان کوچہ لیلٰی ست ایں (جیسے یہ اﷲ کی بنائی ہوئی تصویرہے،یہ  کتا لیلیٰ کی گلی کاچوکیدارہے۔)(مثنوی معنوی،قصہ نواختن مجنون آن سگ الخ،نورانی کتب خانہ پشاور،دفترسوم،ص17) یہ کتا لیلٰی کی گلی کا ہے،محبان ِصادق کاجب دنیا کے محبوبوں کے ساتھ یہ حال ہے،جن میں ایک حسن فانی کا کمال سہی ہزاروں عیب ونقص بھی ہوتے ہیں، توکیاکہنا ہے ہمارے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جنہیں تمام اوصاف حمیدہ میں اعلیٰ کمال، اور جن کا ہرکمال ابدی اور لازوال اور جو ہرعیب ونقص سے منزہ وبے مثال،ان کا ہرعلاقہ والا سنی کے سرکاتاج ہے، صحابہ ہوں، خواہ ازواج ،خواہ اہلبیت رضوان اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین ۔  (فتاویٰ رضویہ، جلد24،صفحہ487،486،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اور اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات : 1340 ھ/1921ء) لکھتے ہیں:سید الطائفہ جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:ان مجنون بنی عامرکان من احباء ﷲ تعالٰی، ستر شأنہ بجنونہ بلیلٰی۔نقلہ الزرقانی فی شرح المواھب الشریفۃ عن روضۃ العاشق لابن القیم واستغربہ۔ یعنی حضرت مجنون بنی عامر اولیاء سے تھے،عشقِ لیلیٰ کے ذریعے اپنا معاملہ چھپا  کر رکھاتھا،(اسے امام زرقانی  علیہ الرحمۃ نے شرح مواہب میں روضۃ العاشق لابن قیم سے نقل کرکے غریب کہا۔ )(فتاویٰ رضویہ، جلد15، صفحہ306،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم