Kya Sote Waqt Jism Se Rooh Nikal Jati Hai ?

کیا سوتے وقت انسان کے جسم سے روح نکل جاتی ہے ؟

مجیب:مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2582

تاریخ اجراء:10رمضان المبارک1445 ھ/21مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جب انسان سوتا ہے، تو سنا ہے کہ اس کی روح جسم سے نکل کر چلی جاتی ہے، کیا یہ درست ہے؟ اور اگر درست ہے،تو اس کی روح کہاں جاتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر سونے والوں کے متعلق فرمایا کہ ان کی روح قبض کر لی جاتی ہے، اسی وجہ سے حدیث پاک میں نیند کو موت کی طرح قرار دیا گیا ہے۔

   اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے﴿ اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَاۚ-فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ترجمہ کنز العرفان: اللہ جانوں کوان کی موت کے وقت وفات دیتا ہے اور جو نہ مریں انہیں ان کی نیند کی حالت میں پھر جس پر موت کا حکم فرمادیتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسرے کو ایک مقرر ہ مدت تک چھوڑ دیتا ہے۔(پارہ 24، سورۃ الزمر، آیت 42)

   ایک اور مقام پر فرماتا ہے﴿وَ هُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ یَبْعَثُكُمْ فِیْهِ لِیُقْضٰۤى اَجَلٌ مُّسَمًّى ترجمہ کنز العرفان:اور وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کماتے ہو اسے جانتا ہے پھر تمہیں دن کے وقت اٹھاتا ہے تاکہ مقررہ مدت پوری ہوجائے۔(پارہ7، سورۃ الانعام، آیت 60)

   حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:’’النوم اخو الموت‘‘ یعنی نیند موت کی بہن ہے۔(المعجم الاوسط، رقم الحدیث 8816،ج 8،ص 342،دار الحرمین،قاھرہ)

   اب یہ سوال کہ روح بدن سے نکل کر کہاں جاتی ہے، تو اس کے متعلق المعجم الاوسط، شعب الایمان اور المستدرک للحاکم وغیرہ کتب احادیث میں مذکور ہے کہ بندہ جب سوتا ہے، تو اس کی روح عالمِ بالا میں عرش کی طرف چلی جاتی ہے، پھر جوپاک حالت میں سوتے ہیں، ان کی روحوں کو عرشِ الٰہی کا قرب نصیب ہوتا اور عرش کے پاس سجدہ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے اور جو طہارت کے بغیر سوتے ہیں، ان کی روحوں کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ملتی ،اور ایک روایت کے مطابق وہ عرش سے دور کہیں سجدہ کرتی ہیں۔

   المعجم الاوسط میں ہے’’ ما من عبد ولا امة ينام فيستثقل نوما الا عرج بروحه الى العرش، فالتي لا تستيقظ الا عند العرش فتلك الرؤيا التي تصدق والتي تستيقظ دون العرش فهي الرؤيا التي تكذب‘‘ ترجمہ: جب کوئی بھی مرد یا عورت گہری  نیند سو جاتا ہے، تو اس کی روح عرش کی طرف بلند ہو جاتی ہے، پس جو عرشِ الٰہی کے پاس اٹھتی ہیں، تو اس وقت کے خواب کی تصدیق کی جاتی ہے اور جو عرش سے دور اٹھتی ہیں، اس وقت کے خواب کی تکذیب کی جاتی ہے۔(المعجم الاوسط، باب المیم، جلد 5، صفحہ 247، مطبوعہ قاھرہ)

   حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ’’ اذا نام الانسان عرج بروحه حتى يؤتى بها الى العرش، فان كان طاهراً اذن لها بالسجود وان كانت جنبا لم يؤذن لها بالسجود ‘‘ ترجمہ: جب انسان سو جائے تو اس کی  روح عالمِ بالا کی طرف بلند ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اسے عرش تک پہنچا دیا جاتا ہے، پس اگر وہ باطہارت ہو، تو اسے سجدہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اگر جنبی ہو، تو سجدہ کی اجازت نہیں دی جاتی۔(الزھد الرقائق لابن المبارک، باب فضل ذکر اللہ عزوجل، صفحہ 441، بیروت)

   شعب الایمان میں ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ان الارواح تعرج بها في منامها وتؤمر بالسجود عند العرش، فمن كان طاهرا سجد عند العرش ومن كان ليس بطاهر سجد بعيدا من العرش‘‘ترجمہ: نیند کی حالت میں روحیں بلند ہو جاتی ہیں اور انہیں عرش کے پاس سجدہ کرنےکا حکم ہوتا ہے، تو جو پاک ہوتی ہیں، انہیں عرش کے پاس سجدہ کرنے کا حکم ہوتا ہے اور جو پاک نہیں ہوتیں وہ عرش سے دور سجدہ کرتی ہیں۔(شعب الایمان، الطھارات، فضل  الوضوء، جلد 4، صفحہ 284،مکتبۃ الرشد،ریاض)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم