Kya Sirf Durood e Ibrahimi He Durood Hai ?

کیا صرف درودِ ابراہیمی ہی درود ہے ؟

مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1620

تاریخ اجراء:19رمضان المبارک1445 ھ/30مارچ2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا صرف درودِ ابراہیمی پڑھنا ہی درود پڑھنا شمار ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   درودِ ابراہیمی بلا شبہ سب درودوں  میں افضل درود ہے،  لیکن اس درود  کے علاوہ  احادیث  مبارکہ میں اور  بھی درود پاک    وارد ہوئے ہیں ، ان کو پڑھنا بھی درود پڑھنا  شمار ہوگا ۔  یونہی  علمائے کرام  سے اوربھی جو درود کے صیغے منقول ہیں ، ان کو  پڑھنا بھی درود پڑھنا ہے ۔

   معجم  کبیر کی ایک روایت میں درود پاک کے یہ صیغے منقول ہیں:” اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ القِیامَۃِ (مُعْجَم کبیر، حدیث4480)

   البتہ علمائے کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ ہمیشہ صرف درود نہ پڑھا جائے بلکہ درود کے ساتھ سلام بھی پڑھنا چاہیے  تاکہ حکم قرآنی پر کامل عمل ہو مگر پھر بھی کوئی شخص صرف درود یا صرف سلام پر اکتفا کرتا ہے تو وہ گنہگار نہیں ۔

   درود و سلام کو جمع کرنا افضل ہے۔ چنانچہ تفسیرات احمدیہ میں ہے:”اختلف الروایات فی کیفیۃ الصلوۃ والافضل ان یجمع بینھما“ یعنی درود شریف کی کیفیت کے متعلق روایات مختلف ہیں اور درود و سلام کو جمع کرنا افضل ہے ۔(تفسیرات احمدیہ ، صفحہ635، مطبوعہ:پشاور)

   صرف درود یا سلام پڑھنا مکروہ نہیں جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں:”قال الحموی وجمع بینھما خروجا من خلاف من کرہ افراد احدھما عن الاخر وان کان عندنا لا یکرہ کما صرح بہ فی منیۃ المفتی ۔۔۔۔اقول وجزم العلامۃ امیر ابن حاج فی شرحہ علی التحریر بعدم صحۃ القول بکراھۃ الافراد واستدل علیہ فی شرحہ المسمی حلیۃ المجلی فی شرح منیۃ المصلی بما فی سنن النسائی بسند صحیح فی حدیث القنوت وصلی اللہ علیہ النبی ثم قال مع ان قولہ تعالی وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ  ، وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰىؕ                 الی غیر ذلک اسوۃ حسنۃ وممن رد القول بالکراھۃ العلامۃ منلا علی القاری فی شرح الجزریۃ“یعنی علامہ حموی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا درود و سلام کو جمع کرےتاکہ صرف درود یا سلام کہنے کو مکروہ کہنے والوں کے اختلاف سے نکل جائے اگرچہ ہمارے نزدیک یہ مکروہ نہیں جیسا کہ منیۃ المفتی میں اس کی صراحت فرمائی ہے ۔ میں کہتا ہوں علامہ امیر ابن حاج علیہ الرحمہ نے اپنی شرح تحریر میں صرف درود یا سلام کو مکروہ کہنے والے کے قول کو غیر صحیح کہنے پر جزم کیا اور اپنی شرح بنام حلیۃ المجلی شرح منیۃ المصلی میں سنن نسائی کی سند صحیح کے ساتھ وارد حدیثِ قنوت میں لفظ صلی اللہ علی النبی سے استدلال فرمایا پھر کہا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا رسولوں پر سلام ہو ، اللہ کے چنے ہوئے بندوں پر سلام ہو وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔ صرف درود یا سلام پڑھنے کو  مکروہ کہنے والوں کے رد میں علامہ علی قاری علیہ الرحمہ نے شرح جزریہ میں کلام فرمایا۔(ردالمحتار ، مطلب افضل صیغ الصلاۃ ، جلد1، صفحہ45-46،مطبوعہ: کوئٹہ)

   درود کو سلام سے الگ کرنا مکروہ نہیں جیسا کہ علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ولا یکرہ افرادھا عن السلام علی الاصح عندنا“یعنی اصح قول کے مطابق درود کو سلام سے الگ کرنا ہمارے نزدیک مکروہ نہیں ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ، خطبۃ الکتاب ، صفحہ12،مطبوعہ: کراچی)

   علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں:”قال ابن الجزری فی مفتاح الحصن الحصین واما الجمع بین الصلوۃ والسلام فھو الاولی والافضل والاکمل لقولہ تعالی صلوا علیہ وسلموا تسلیما ولو اقتصر علی احدھما جاز من غیر کراھۃ فقد جری علیہ جماعۃ من السلف منھم الامام مسلم فی اول صحیحہ ھلم جرا حتی الامام الشاطبی فی قصیدتہ اللامیۃ والرائیۃ ۔۔۔۔ وکذا اقتصر علی الصلوۃ دون التسلیم الامام الشافعی فی خطبۃ رسالتہ والشیخ الشیرازی فی خطبۃ تنبیھہ"ترجمہ: علامہ ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ نے مفتاح الحصن والحصین میں فرمایا کہ صلوۃ و سلام کو ایک ساتھ پڑھنا افضل و اولیٰ و اکمل ہے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے ، تم ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔اور اگر ان میں سے کسی ایک پر اکتفا کیا تو بغیر کراہت ایسا کرنا، جائز ہے کیونکہ اسلاف کی ایک جماعت میں یہ رائج ہے جن میں سے امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایسا کیا اور یہ سلسلہ جاری رہا حتی کہ امام شاطبی علیہ الرحمہ نے اپنے قصیدہ لامیہ اور رائیہ میں  بھی ایسا ہی کیا ۔۔ اسی طرح سلام کے بغیر صرف درود کہنے پر امام شافعی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الرسالۃ کے خطبہ میں اور علامہ شیرازی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب التنبیہ کے خطبے میں اکتفا کیا ۔(مسالک الحنفاء للقسطلانی، المطلب الرابع فی مشروعیۃ الخ، صفحہ157، المجمع الثقافی)

   درود و سلام الگ الگ عبادتیں ہیں، صرف ایک پر اکتفا مکروہ نہیں  جیسا کہ علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” ان الواو فی الآیۃ لمجرد الجمعیۃ لا لافادۃ المعیۃ ولا للدلالۃ التعقیبیۃ کما ھو مقرر فی الضوابط الاصولیۃ والقواعد العربیۃ فلا دلالۃ فیھا علی الکراھۃ اصلا ولا فرعا کقولہ تعالی وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وکقولہ وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ، بل فی الجمع بینھما دلالۃ واضحۃ علی انھما عبادتان مستقلتان ، لا یتوقف وجود احداھما علی الاخری “ آیت مبارکہ میں لفظ واو صرف دو عباتوں کو ایک حکم میں جمع کرنے کے لیے ہے نہ کہ ان دونوں کے ایک ساتھ ہونے اور ایک کے بعد دوسری کو ذکر کرنے کا فائدہ دینے کے لیے جیسا کہ اصول فقہ  اور عربی لغت کے قواعد و ضوابط سے یہ بات ثابت ہے لہذا آیت مبارکہ میں اصولی یا فروعی کوئی دلالت موجود نہیں کہ صرف درود یا صرف سلام کہنا مکروہ ہو جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان نماز قائم کرو اور زکوۃ دو یونہی اللہ تعالی کا فرمان حج اور عمرے کو اللہ تعالی کے لیے پورا کرو ۔ بل آیت مبارکہ میں دونوں کو جمع کرنے میں واضح دلالت ہے کہ یہ دونوں مستقل عبادتیں ہیں ، جن میں سے کسی ایک کا وجود ، دوسرے پر موقوف نہیں ۔(رسائل علی القاری ، افراد الصلاۃ الخ ،جلد3، صفحہ306، دار اللباب)

   صرف درود یا سلام کی فضیلت سے متعلق وارد احادیث بھی درود و سلام کے مستقل عبادت ہونے پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” ومما یؤید ما حررنا فی حمل کلامہ علی ما قررناہ الاحادیث الواردۃ فی فضیلۃ من صلی علیہ وحدھا وفیمن سلم علیہ بانفرادھاولم یجمع فی حدیث بینھما فدل علی انھما عبادتان مستقلتان ، لایکرہ انفراد احداھما وان کان الاولی والافضل جمعھما “نصوص کا محمل بیان کرنے میں جو بات ہم نے ذکر کی ہے اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف درود یا صرف سلام پڑھنے کی فضیلت وارد ہے اور کسی حدیث میں دونوں کو ایک ساتھ جمع نہیں کیا گیا تو یہ بات دلالت کرتی ہے کہ یہ دونوں مستقل عبادتیں ہیں جن میں سے کسی ایک کو دوسرے سے جدا کرنا مکروہ نہیں البتہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کرنا افضل و اولی ہے۔(رسائل علی القاری ، افراد الصلاۃ الخ ،جلد3، صفحہ308، دار اللباب)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم