Kya Sar Ki Sidon Se Baal Chote Aur Upar Se Baal Bare Rakhna Mana Hai ?

کیا سر کی سائیڈوں سے بال چھوٹےاور اوپر سے بڑے رکھنا منع ہے ؟

مجیب: ابوحذیفہ محمد شفیق عطاری

مصدق : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:28

تاریخ اجراء: 07 ذیقعدۃ الحرام 1437 ھ/11اگست  2016 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ حدیث پاک میں قزع(یعنی سرکے بالوں میں بعض کو کاٹنا اور بعض چھوڑ دینے) سے منع کیا گیا ہے ، اس سے کیا مراد ہے اور آجکل جس طرح عموما بال کاٹے جاتے ہیں ۔ کانوں سے اوپر چھوٹے کرنا اور سر کے اوپر والے حصے کو بڑا کرنا یہ بھی قزع میں شمار ہوگا یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حدیث پاک میں قزع سے منع کیا گیا ہے اور اس کی کیفیت جو شروح حدیث اور فقہ میں بیان کی گئی ہے کہ آدمی سر کے متفرق مقامات سے بال منڈوادےاور بعض جگہوں پر بالوں کو چھوڑ دے یہ قزع کہلاتا ہے ، اس طرح بال کٹوانا مکروہ تنزیہی اور ممنوع ہے ۔ہمارے ہاں جس طرح عموما بال کٹوائےجاتے ہیں ، جو طریقہ سوال میں مذکور ہے اس پر قزع کا اطلاق نہیں آئے گا ، کیونکہ قزع خاص کیفیت ہے جواوپر مذکور ہے ، البتہ ایسے بال کٹوانا بھی سنت اور سلف و صلحاء کے طریقوں کے برخلاف ہے ۔

   صحیح بخاری شریف میں ہے:” أخبرني ابن جريج قال أخبرني عبيد الله بن حفص أن عمر بن نافع أخبره عن نافع مولى عبد الله أنه سمع ابن عمر رضي الله عنهما يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن القزع قال عبيد الله قلت وما القزع فأشار لنا عبيد الله قال إذا حلق الصبي وترك هاهنا شعرة وهاهنا وهاهنا فأشار لنا عبيد الله إلى ناصيته وجانبي رأسه“ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا ۔ عبید اللہ کہتے ہیں میں نے کہا ، قزع کیا ہے ؟ تو عبید اللہ نے اشارہ کر کے بتایا کہ جب بچے کا سر کچھ جگہوں سے مونڈا جائے اور کچھ جگہ چھوڑ دیا جائے  اور عبید اللہ نے اپنی پیشانی اور سر کے دونوں کناروں  کی طرف اشارہ کیا ۔                        (صحیح بخاری ، کتاب اللباس ، باب القزع ، جلد 2، صفحہ 877،  مطبوعہ کراچی )

   زمخشری نے قزع کی تعریف یوں بیان کی ہے :”النبي صلى الله عليه و سلم نهى عن القزع وروى عن القنازع . يحلق الرأس ويترك شعر متفرق في مواضع فذلك الشعر قزع“ترجمہ : نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا اور ایک روایت میں قنازع ہے ، یعنی سر کو متعدد مقامات سے مونڈا جائے اور متعدد مقامات سے بال چھوڑ دیئے جائیں تو یہ بال قزع ہیں ۔(الفائق فی غریب الحدیث والاثر، حرف القاف مع الزاء، جلد3، صفحہ 189، دار المعرفۃ ، بیروت )

   منتقی میں ہے :”ونهى عن القزع وهو أن يحلق بعض الرأس ويبقي مواضع ، والأصل في ذلك ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن القزع ومن ذلك القصة والقفا وهو أن يحلق رأس الصبي فيترك منه مقدمه وشعر القفا “ ترجمہ : قزع سے منع کیا گیا ہے اور قزع یہ ہے کہ سر کا کچھ حصہ مونڈ دیا جائے اور کچھ جگہوں کو چھوڑ دیا جائے ۔ اس میں اصل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا گیا کہ آپ نے قزع سے منع فرمایا ہے اور اسی سے قصہ اور قفا ہے اور وہ یہ ہے کہ بچے کے سر کو(بیچ سے) مونڈنااور آگے کے اور گُدی کے بالوں کو چھوڑ دیا جائے ۔(المنتقی ، الجامع ، السنۃ فی الشعر، جلد 7، صفحہ 267، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی ، قاھرہ )

   عمدۃ القاری میں ہے :” وقال النووي في شرح مسلم أجمع العلماء على كراهة القزع إذا كان في مواضع متفرقة إلا أن يكون لمداواة ونحوها وهي كراهة تنزيه“ ترجمہ : امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : قزع کے مکروہ ہونے پر علماء کا اجماع ہے جب ( سر کے ) مختلف حصوں میں ہو ، سوائے علاج وغیرہ کی خاطر ( کہ پھر مکروہ نہیں اور اس مکروہ سے مراد ) مکروہِ تنزیہی ہے ۔(عمدۃ القاری ،کتاب الطب ، باب فی القزع ، جلد 22، صفحہ58، دار احیاء التراث العربی ، بیروت )

   یہی کلام مرقاۃ میں ہے ۔

   فتاوی ہندیہ میں ہے :”يكره القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع كذا في الغرائب“ترجمہ : قزع مکروہ ہے اور قزع یہ ہے کہ مختلف ٹکڑوں میں تین انگلیوں کی مقدار تک بعض سر کو مونڈے اور بعض کے بال چھوڑ دے ۔(فتاوی ھندیہ ، کتاب الکراھیۃ ، الباب التاسع عشر ، جلد5، صفحہ 437،  مطبوعہ کراچی )

   علامہ شامی لکھتے ہیں:”وفي الذخيرة : ولا بأس أن يحلق وسط رأسه ويرسل شعره من غير أن يفتله وإن فتله فذلك مكروه ، لأنه يصير مشبها ببعض الكفرة والمجوس في ديارنا يرسلون الشعر من غير فتل ، ولكن لا يحلقون وسط الرأس بل يجزون الناصية تتارخانية قال ط : ويكره القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع كذا في الغرائب“ترجمہ : ذخیرہ میں ہے کہ سر کے درمیانی حصے کو مونڈ دینا اور باقی بال چھوڑ دینے میں حرج نہیں جبکہ ان بالوں کو نہ گوندھے اور اگر گوندھ لیا تو یہ مکروہ ہے کیونکہ ہمارے شہروں میں یہ بعض کافروں اور مجوسیوں کی مشابہت ہے کہ وہ بال گوندھے بغیر لٹکاتے ہیں لیکن سر کا درمیانی حصہ نہیں مونڈتے بلکہ پیشانی کے بال مونڈتے ہیں ، علامہ طحطاوی نے فرمایا قزع مکروہ ہے اور قزع یہ ہے کہ مختلف ٹکڑوں میں تین انگلیوں کی مقدار تک بعض سر کو مونڈے اور بعض کے بال چھوڑ دے ۔(رد المحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ ، فصل فی البیع ، جلد9، صفحہ 672، مطبوعہ کوئٹہ )

   جد الممتار میں اسی کو ہندیہ کے حوالے سے مقرر رکھا گیاہے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے :”تالو کے بال منڈانا جس طرح یہاں کے لوگوں کی عادت ہے بشرطیکہ پیشانی کے بال باقی رکھے جائیں جسے پان بنوانا کہتے ہیں جائز ہے مگر اولیٰ نہیں۔ ہاں متفرق مواضع سے قطعے قطعے منڈوانا جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں بیچ سرمنڈوادیا آس پاس کے بال چھوڑدئیے اور کنپٹیوں پر ببریاں رکھیں آس پاس منڈوادئیے اور گدی پر ایک قطعہ بالوں کا چھوڑا دہنے بائیں حلق کیے ،اسے عربی میں قزع کہتے ہیں اور وہ ممنوع ہے۔۔۔۔ اور یہ نئی نئی تراشیں ایک ایک انگل کے بال رکھنا جب اس سے بڑھیں کتروادینا یا آگے سے بڑے پیچھے سے کترے ہوئے یا وسط تالو سے پیشانی تک کھلوادینا یا گدی کے بال منڈانا یا پیشانی سے گدی تک سڑک نکالنا یامنڈے سرخواہ بالوں کی حالت میں یعنی چوڑی قلمیں بڑھا کر رخساروں پر جھکانا یا داڑھی میں ملادینا، یہ باتیں مخالف سنت وخلاف وضع صلحائے مسلمین ہونے کے علاوہ ان میں اکثر اقوام کفار کی ایجاد ہیں جن کی مشابہت سے مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 22، صفحہ 577، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   بہار شریعت میں ہے :”بیچ سر کو مونڈا دینا اور باقی جگہ کو چھوڑ دینا جیسا کہ ایک زمانہ میں پان بنوانے کا رواج تھا یہ جائز ہے اور حدیث میں جو قزع کی ممانعت آئی ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ متعدد جگہ سر کے بال مونڈنا اور جگہ جگہ باقی چھوڑنا، جس کو گل بنانا کہتے ہیں۔ بخاری شریف سے بھی یہی ظاہر ہے۔ پان بنوانے کو قزع سمجھنا غلطی ہے، ہاں بہتر یہی ہے کہ سر کے بال مونڈائے تو کل مونڈا ڈالے یہ نہیں کہ کچھ مونڈے جائیں اور کچھ چھوڑ دیے جائیں۔بعض دیہاتیوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ پیشانی کو خط کی طرح بنواتے ہیں اور دونوں جانب نوکیں نکلواتے ہیں یا اور طرح سے بنواتے ہیں یہ سنت اور سلف کے طریقہ کے خلاف ہے، ایسا نہ کریں۔“(بھار شریعت ، جلد3، صفحہ 587، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم