مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9048
تاریخ اجراء:14 صفر المظفر1446ھ/20اگست2024
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ کیا اسلام میں مور کھانا،جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مور حلال پرندہ ہے۔اِس کا گوشت کھانے کی شرعاً اجازت ہے،البتہ نہ کھانا بہتر ہے۔
مور کی حِلَّت کی بنیاد ایک فقہی ضابطے پر ہےکہ وہ تمام پرندے کہ جن کی چونچ سیدھی ہوتی ہے،کوّے کے علاوہ سب حلال ہیں اور مور کی چونچ بھی سیدھی ہوتی ہے،طوطے کی طرح مڑی ہوئی نہیں ہوتی،لہذا یہ حلال ہے۔نیز پرندوں میں حرمت کی ایک وجہ”گندی“اور”خبیث“چیزوں کا کھانا بھی ہوتا ہے،جبکہ مور ایسی چیزیں نہیں کھاتا، لہذا اِس پہلو سے بھی حلال ہے،البتہ کھانا بہتر کیوں نہیں،اِس کی وجہ نیچے بیان کی جائے گی۔
مور کی حلت کے متعلق نہایت جامع انداز میں علامہ ہاشم ٹھٹھوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وصال: 1174ھ/ 1760ء)اپنی معروف کتاب”فاکھۃ البستان“میں لکھتے ہیں:’’وأما الطاوس فقد ذكر فی شرح القدوری: أنه لا بأس بأكله،وهكذا فی جامع الرموزنقلاً من المضمرات،وهكذا فی مطالب المؤمنين.وذكر فی تفسير المغنی:أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:إنه إذا صاحيقول:"استغفروا أيها المذنبون" ومن ثم نهى النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن قتله۔۔۔وذكر فی فتاوی الزندويسی:أنه لا بأس بأكل الطاوس، وعن الشعبی:أنه يكره أشد الكراهة وبالأول يفتی.كذا فی كنز العباد و الجواهر الأخلاطی والحمادية ونعيم الألوان‘‘ترجمہ:مور کے متعلق”شرح القدوری“میں ہے:مور کھانے میں کوئی حرج نہیں۔اِسی طرح”جامع الرموز“میں”المضمرات“سےمنقول ہے۔یونہی”مطالب المؤمنین“میں ہے۔ ”تفسیر المغنی“میں ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مور جب آواز نکالتا ہے،تو کہتا ہے”اے گنہگارو!اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو“۔اِسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ ”فتاوٰی الزندویسی“میں کہا گیا: مور کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں۔امام شعبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ہے کہ مور کا گوشت سخت مکروہ ہے، البتہ پہلے قولِ حلت پر فتویٰ ہے۔ اِسی طرح”کنز العباد،جواھر الاخلاطی، الفتاوٰی الحمادیۃاور نعیم الالوان“ میں ہے۔(فاکھۃ البستان فی مسائل ذبح وصید الطیر والحیوان، صفحہ162، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوٰی عالمگیری میں ہے:’’لا بأس بأكل الطاووس،وعن الشعبی يكره أشد الكراهة وبالأول يفتى‘‘ ترجمہ:مور کھانے میں کوئی حرج نہیں،البتہ امام شعبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ وہ اِسے سخت مکروہ جانتے تھے، لیکن پہلے قول ِ حِلَّت پر فتوی ہے۔(الفتاوى الھندیہ، جلد05، صفحہ290،مطبوعہ کوئٹہ)
یاد رہے کہ دونوں کتابوں میں مور کی حِلَّت کو”لابأس“ کے ساتھ بیان کیا گیا اور رسم الافتاء کے مطابق ”لابأس“ جواز ثابت کرتا ہے،مگر وہ جواز”خلافِ اَولیٰ“ کی حیثیت سے ہوتا ہے،یعنی اگرچہ”لابأس“ سے جواز ثابت ہو جائے گا،مگر اُس کا غیر بہتر ہوتا ہے، لہذا مور کی حلت کو”لابأس“کے الفاظ سے بیان کرنے کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اِسے کھانا اگرچہ جائز ہے،مگر نہ کھانا بہتر اور اَولیٰ ہے۔”فاکھۃ البستان“میں ہے:فإن لفظ”لا بأس“يدل على أن الأولى غيره،فتدبر‘‘ ترجمہ:”لابأس“ کا لفظ اِس امر پر دلالت کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ اِس کا غَیر ”اَولیٰ“اور”بہتر“ ہے۔ اِس میں خوب غور وفکر کرو۔(فاکھۃ البستان فی مسائل ذبح وصید الطیر والحیوان، صفحہ160، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
اِسے کھانے کے خلافِ اَولیٰ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شافعیہ کے نزدیک مور کا گوشت حرام ہے اور یہ فقہی ضابطہ ہے کہ جس مسئلہ میں فقہاءِ دین کا اختلاف ہو،وہاں راہِ احتیاط اختیار کرتے ہوئے”خروج عن الخلاف“ بہتر ہوتا ہے، لہذا مور اگرچہ ہمارے نزدیک حلال ہے، لیکن شافعیہ کے نزدیک حرام ہے، تو نہ کھانا ہی بہتر ہے۔یہی وجہ تھی کہ ماہرینِ فقہ نے اِس کی حِلَّت کو” لا بأس“سے بیان کیا۔
فقہی ضوابط کی روشنی میں مور کی حِلَّت:
مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال:1403ھ/1982ء)نے ایک اِستقرائی قاعدہ بیان کیا،جس کی روشنی میں مور کی حِلَّت بھی ثابت ہوتی ہے۔آپ نے لکھا:پرندوں کے بارے میں ایک استقرائی قاعدہ یہ بھی ہے کہ جن کی چونچ مُڑی ہوئی ہے،طوطے کے سوا سب حرام ہیں،جیسے باز وغیرہ اورجن کی چونچ سیدھی ہے،وہ کوے کے بغیر سب کے سب حلال ہیں،جیسے کبوتر، فاختہ،گیری،لالی،تلیر وغیرہ۔(فتاویٰ نوریہ،جلد03،صفحہ253،مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)
مور کی چونچ لمبی اور سیدھی ہوتی ہے، لہذا اس ضابطہ کی روشنی میں مور حلال ہے۔
دوسری وجہِ حِلَّت یہ بھی ہے کہ مور گندی چیزیں نہیں کھاتا،کہ جس کے سبب دیگر گندگی کھانے والے پرندوں کی طرح اس کی حرمت ثابت ہو،چنانچہ ابو البقاء علامہ کمال الدین دَمِیری شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:808ھ /1405ء)نے مورکےمتعلق احناف کا مذہب بیان کرتے ہوئےلکھا:’’وقيل:حلال؛لعدم أكله المستقذرات واللحوم‘‘ترجمہ:اور کہا گیا کہ یہ حلال ہے،کیونکہ یہ گندی چیزیں اور گوشت نہیں کھاتا۔(النجم الوھاج فی شرح المنھاج، جلد09، صفحہ553،مطبوعہ دار المنھاج،جدۃ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟