Kya Mah e Safar Aur Rabi ul Awwal Mein Tameerat Karwana Manhoos Hai ?

کیا ماہ صفر اور ربیع الاول میں تعمیرات کروانا منحوس ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Har-3508-1

تاریخ اجراء:05 شعبان المعظم 1439ھ/22 اپریل2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ صفر یاربیع الاول کے مہینے میں تعمیرات کاکام کرواسکتے ہیں یانہیں ،بعض لوگ ان مہینوں میں کام کرنے کونقصان دہ ومنحوس سمجھتے ہیں اس کی کیاحقیقت ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صفر یاربیع الاول یاکسی اور مہینے میں تعمیرات یادیگر کوئی بھی جائز کام کرسکتے ہیں ، شرعاً اس کی کوئی بھی ممانعت نہیں اور کسی کاان مہینوں میں کام کرنے کونقصان دہ ومنحوس سمجھناغلط وبے اصل ہے اور ا یسی سوچ زمانہ جاہلیت میں پائی جاتی تھی ، جس سے اسلام نے منع کردیا۔

   بخاری و مسلم میں ہے:’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا عدو ی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا صفرو فر من المجذوم کما تفر من الاسد‘‘رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدوی نہیں یعنی مرض لگنا اور متعدی ہونا نہیں اور نہ بد فالی ہے اور نہ ہی الو منحوس ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے اور مجذوم سے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ ‘‘(صحیح بخاری، ج 2،ص371،مطبوعہ لاهور،صحیح مسلم،ج2،ص230،مطبوعہ کراچی)

   نیز اس ماہ(یعنی صفرالمظفر) میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہوئی تھی مگر اس وجہ سے اس ماہ کو منحوس نہیں کہہ سکتے کہ اگر ایسا ہو ، تو جس ماہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری وصال شریف ہو ا ، وہ ماہ زیادہ منحوس قرار دینا پڑے گا ، جو سراسر باطل ہے۔

   سیدی اعلی حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمنٰ فرماتے ہیں : ’’ مسلمان مطیع پر کوئی چیز نحس نہیں اور کافروں کے لئے کچھ سعید نہیں اور مسلمان عاصی کے لئے اس کااسلام سعد ہے ،طاعت بشرطِ قبول سعد ہے، معصیت بجائے خود نحس ہے ۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج21،ص223،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاهور)

   صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :’’ماہِ صفر کاآخر چہارشنبہ ہندوستان میں بہت منایاجاتاہے لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں سیر وتفریح وشکار کوجاتے ہیں ،پوریاں پکتی ہیں اورنہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روز غسلِ صحت فرمایاتھا اور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لیے تشریف لئے گئے تھے یہ سب باتیں بے اصل ہیں بلکہ ان دنوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کامرض شدت کے ساتھ تھا اور وہ باتیں خلافِ واقع ہیں ۔اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں بلکہ حدیث کاارشاد ’’لاصفر‘‘ یعنی صفر کوئی چیز نہیں ،ایسی تمام خرافات کورد کرتاہے۔‘‘ھارِ شریعت ،ج3،ص659/60،مطبوعہ مکتبة المدنیہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم