Kya Jinnat Insan Ko Nuksan Pahuncha Sakte Hain?

کیا جنات انسانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں؟

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2398

تاریخ اجراء: 13رجب المرجب1445 ھ/25جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا جن انسانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں ! جنات انسانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جس طرح انسانوں میں اچھے برے ہر طرح کے  افراد  ہوتے ہیں، اسی طرح جنات میں سے بھی بعض صالح اور نیک ہوتے ہیں ،جو انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے اور کچھ شریر ہوتے ہیں، جو انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں  ،اور جنات کا انسانوں کو نقصان پہنچانا دو طرح سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ امیراہلسنت مولانا الیاس قادری دام ظلہ "قوم جنات اور امیر اہلسنت " نامی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں:”جنات انسان کو دو طرح سے تکلیف دیتے ہیں:

(1)   اس کے جسم سے باہر رہتے ہوئے

(2)  اس کے جسم میں  داخل ہوکر

{1}جسم سے باہر رہ کر تکلیف دینا

   حضرت سیدناابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ عزوجل کے مَحبوب ، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’ میری امت طعن اور طاعون سے ہلاک ہوگی ۔ ‘‘عرض کی گئی : ’’یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! طعن کے بارے میں  تو ہم نے جان لیا مگر یہ طاعون کیا ہے؟‘‘فرمایا : یہ تمہارے دشمن جنّات کے نیزوں  کی چبھن ہے ، ان کامارا ہوا شہید ہے۔ ‘‘(اَلْمُسْنَدُ لِلْاِمَامِ اَحْمَدَ بنِ حَنْبَل ،  مسند ابی موسی الاشعری ، الحدیث۱۹۵۴۵ ، ج۷ ، ص۱۳۱)

(2)جنات کا جسم میں  داخل ہو کر نقصان پہنچانا

   جن کا انسان کے بدن میں  داخل ہونا بھی قراٰن واحادیث سے ثابت ہے ، سورۃ البقرۃ میں  ہے : لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ؕ(پ۳ ، البقرہ ۲۷۵)

   ترجمۂ کنزالایمان : قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں  گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنادیا ہو۔

   علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  (اَلْمُتَوَفّٰی ۶۷۱ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں : ’’ یہ آیت اس شخص کے انکار کے فساد پر دلیل ہے جو یہ کہتا ہے کہ انسان کو پڑنے والا دورہ جن کی طرف سے نہیں  اور گمان کرتا ہے کہ یہ طبیعتوں  کا فعل ہے اور شیطان انسان کے نہ تو اندر چلتا ہے اور نہ اسے چھوتا ہے ۔ ‘‘(اَلْجَامِعُ لِاَحْکَامِ الْقُرْاٰنِ  ،  سُوْرَۃُ البقرۃ ، تحت الآیۃ ۲۷۵ ، ج۲ ، ص۲۶۹)

   حضرتِ سیِّدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں  کہ ایک عورت شہنشاہِ مدینہ ، قرارِ قلب و سینہ ، صاحبِ معطر پسینہ ، باعثِ نُزولِ سکینہ ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پاس اپنے بیٹے کو لائی اور عرض گزار ہوئی : ’’ یارسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میرے بیٹے کو جنون عارض ہوتا ہے اور یہ ہم کو تنگ کرتا ہے ۔ ‘‘آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اس کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی ۔ اس نے قے کی اور اس کے پیٹ سے سیاہ کتے کے پلے کی طرح کوئی چیز نکلی ۔(مُسْنَدُالدَّارِمِیْ  ، الحدیث ۱۹ ، ج ۱ ، ص۲۴)(قوم جنات اور امیر اہلسنت ،صفحہ 116تا 118، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم