Kya Baap Shareek Behan Se Parda Hoga ?

کیا باپ شریک بہنوں سے پردہ ہوگا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13057

تاریخ اجراء:        07ربیع الثانی1445 ھ/23اکتوبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ باپ ایک ہے جبکہ والدہ الگ الگ ہیں، تو کیا اس صورت میں ان لڑکوں کا اپنی باپ شریک بہنوں سے بھی پردہ ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بہن خواہ سگی ہو یا باپ یا ماں شریک ہو بہر صورت وہ محرمات میں داخل ہے اور محرمات سے پردہ فرض نہیں، لہذا پوچھی گئی صورت میں لڑکوں کا اپنی باپ شریک بہنوں  سے پردہ نہیں۔

   بہن محرمات میں داخل ہے، اسی حرمت میں باپ شریک بہن میں داخل ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ “ ترجمہ کنز الایمان: ” حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں۔ “(القرآن الکریم: پارہ 05، سورۃ النساء، آیت 23)

    (وَ اَخَوٰتُكُمْ۔۔۔۔الخ) کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ”یہ سب سگی ہوں یا سوتیلی۔(تفسیر خزائن العرفان،  ص 160، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:” اصل علت حرمت جزئیت ہے کہ نسب میں ظاہر ۔۔۔۔ پھر دو شخصوں میں علاقہ جزئیت کی دوصورتیں ہیں: ایک یہ کہ ان میں ایک دوسرے کا جز ہو، دوسرے یہ کہ دونوں تیسرے کے جزہوں۔۔۔ صورت ثانیہ میں تین صورتیں ہیں:(۱) دونوں ثالث کے جز قریب ہوں، یہ عینی یا علاتی یااخیافی بھائی یابہنیں یا بہن بھائی ہوئے، عام ازیں کہ دونوں اس کے جز نسبی ہوں یا دونوں رضاعی یا ایک نسبی ایک رضاعی۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 500-499، رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:”بہن خواہ حقیقی ہو یعنی ایک ماں باپ سے یا سوتیلی کہ باپ دونوں کا ایک ہے اور مائیں دو یا ماں ایک ہے اور باپ دو ، سب حرام ہیں۔(بہار شریعت ،ج02،ص22، مکتبۃالمدینہ، کراچی)

   محارم سے پردہ نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:”پردہ صرف ان سے نادرست ہے جو بسبب نسب کے عورت پر ہمیشہ ہمیشہ کو حرام ہوں اور کبھی کسی حالت میں ان سے نکاح ناممکن ہو جیسے باپ، دادا،نانا، بھائی، بھتیجا، بھانجا، چچا، ماموں، بیٹا، پوتا، نواسا۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 235، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقا واجب؛ اور محارم نسبی سے پردہ نہ کرنا واجب، اگر کریگی گنہگار ہوگی؛ اور محارم غیر نسبی مثل علاقہ مصاہرت ورضاعت ان سے پردہ کرنا اورنہ کرنادونوں جائز۔ مصلحت وحالت پرلحاظ ہوگا۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 240، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

   محارم عورتوں کے کن اعضاء کی طرف مرد نظر کرسکتا ہے۔ اس متعلق تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :”(ومن محرمه) هي من لا يحل له نكاحها أبدا بنسب أو سبب ولو بزنا (إلى الرأس والوجه والصدر والساق والعضد إن أمن شهوته۔۔۔۔۔وإلا لا، لا إلى الظهر والبطن)یعنی محارم سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے، یہ حرمت نسب سے ہو یا سبب سے ہو اگر چہ زنا ہی کے سبب یہ حرمت آئی ہو، تو ایسی محارم عورتوں کے سر، چہرے، سینے، پنڈلی، بازو کی طرف نظر کرسکتا ہے جبکہ شہوت سے امن ہو ورنہ نہیں، ہاں پیٹھ اور پیٹ کی طرف دیکھنا ، جائز نہیں۔(تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج 09، ص 606-605، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:” جو عورت اس کے محارم میں ہو اس کے سر، سینہ، پنڈلی، بازو، کلائی، گردن، قدم کی طرف نظر کرسکتا ہے، جبکہ دونوں میں سے کسی کی شہوت کا اندیشہ نہ ہو ۔ محارم کے پیٹ، پیٹھ اور ران کی طرف نظر کرنا ، ناجائز ہے۔ اسی طرح کروٹ اورگھٹنے کی طرف نظر کرنا بھی ناجائز ہے۔ کان اور گردن اور شانہ اور چہرہ کی طرف نظر کرنا ، جائز ہے۔ محارم سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے، یہ حرمت نسب سے ہو یا سبب سے مثلاً رضاعت یا مصاہرت۔ “(بہارِ شریعت،ج03،ص445-444، مکتبۃالمدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم