Koh e Qaf Ki Haqeeqat Kya Hai ?

کوہ قاف کی حقیقت کیا ہے؟

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-988

تاریخ اجراء: 26ذوالحجۃالحرام1444 ھ/15جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کوہِ قاف کی کیا حقیقت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

                 کوہِ قاف ایک پہاڑ ہے جو تمام زمین کو گھیرے ہوئے ہے ، زمین میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں کوہ ِقاف کے ریشے پھیلے ہوئے نہ ہوں۔

                 امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ زلزلہ آنے کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”سبب حقیقی تو وہی ارادۃ اﷲہے ، اور عالمِ اسباب میں باعثِ اصلی بندوں کے معاصی۔ مااصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوعن کثیر،تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے تمہارے ہاتھوں کی کمائیوں کابدلہ ہے۔ اور بہت کچھ معاف فرمادیتا ہے۔ اور وجہِ وقوع کوہِ قاف کے ریشہ کی حرکت ہے۔ حق سبٰحنہ و تعالٰی نے تمام زمین کو محیط ایک پہاڑ پیدا کیا ہے جس کا نام قاف ہے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اس کے ریشے زمین میں نہ پھیلے ہوں ۔جس طرح پیڑ کی جڑ بالائے زمین تھوڑی سی جگہ میں ہوتی ہے اس کے ریشے زمین کے اندر اندر بہت دور تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں کہ اس کے لیے وجہ قرار ہوں اور آندھیوں میں گرنے سے روکیں۔ پھر پیڑ جس قدر بڑا ہوگا اتنی ہی زیادہ دور تک اس کے ریشے گھیریں گے۔ جبلِ قاف جس کا دور تمام کرہ زمین کو اپنے پیٹ میں لیے ہے اس کے ریشے ساری زمین میں اپنا جال بچھائے ہیں۔ کہیں اوپر ظاہر ہو کر پہاڑیاں ہوگئے کہیں سطح تک آکر تھم رہے جسے زمین سنگلاخ کہتے ہیں۔ کہیں زمین کے اندر ہے قریب یا بعید ایسے کہ پانی کی چوان سے بھی بہت نیچے ان مقامات میں زمین کا بالائی حصہ دور تک نرم مٹی رہتا ہے۔ جسے عربی میں سھل کہتے ہیں۔ ہمارے قرب کے عام بلاد ایسے ہی ہیں مگر اندر اندر قاف کے رگ و ریشہ سے کوئی جگہ خالی نہیں جس جگہ زلزلہ کے لیے ارادہ الہٰی عزوجل ہوتا ہے۔  والعیاذ برحمتہ ثم برحمۃ رسولہ جل وعلا وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ( اللہ تعالی جل جلالہ کی پناہ اس کی رحمت کے ساتھ اور اس کے رسول  کی رحمت کے ساتھ ۔ت) قاف کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے وہاں کے ریشے کو جنبش دیتا ہے۔ صرف وہین زلزلہ آئے گا جہاں کے ریشے کو حرکت دی گئی۔ پھر جہاں خفیف کا حکم ہے اس کے محاذی ریشہ کو آہستہ ہلاتا ہے اور جہاں شدید کا امر ہے وہاں بقوت، یہاں تک کہ بعض جگہ صرف ایک د ھکا سا لگ کر ختم ہوجاتا ہے۔ اور اسی وقت دوسرے قریب مقام کے درو دیوار جھونکے لیتے اور تیسری جگہ زمین پھٹ کر پانی نکل آتا ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد27، صفحہ 95،96 ،رضا فاؤنڈ یشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم