Pehli Beti Aath Mah Ki Hai, kiya Is Wajah Se Hamal Zaya Karwa Sakte Hai ?

پہلی بیٹی آٹھ ماہ کی ہے،کیا اس وجہ سےحمل ضائع کرواسکتے ہیں؟

مجیب:مولانانوید چشتی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin:4884

تاریخ اجراء:25صفرالمظفر1438ھ/26نومبر2016ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں تین بچوں کا والد ہوں، میری چھوٹی بیٹی ابھی تقریباً آٹھ ماہ کی ہے، میری زوجہ کی طبیعت خراب ہوئی تو میں نے اس کا چیک اپ کرایا جس کی وجہ سے پتا چلا کہ اس کو دوبارہ حمل ٹھہر چکا ہے، ڈاکٹر نے اس حالت میں نئے بچے سے منع کیا ہے، کہ میری زوجہ کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی، اور نئے حمل کی وجہ سے دودھ خشک ہونے کا خدشہ ہے جب کہ ہم نے ابھی بچی کو دودھ بھی پلانا ہے، اب آپ شریعت کی روشنی میں ارشاد فرمائیں کہ ہم اس حمل کو ضائع کرا سکتے ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ضرورت و مجبوری کی حالت میں حمل ضائع کرنا(جب کہ حمل ٹھہرے ہوئے ایک سو بیس دن نہ گزرے ہوں) جائز ہے اور بلاضرورت و مجبوری منع ہے، ضرورت جیسے کہ پہلے دودھ پیتا بچہ ہو، حمل کی وجہ سے دودھ خشک ہو جائے گا اور پہلے والے بچے کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے یا پہلے والے کی پرورش میں حرج شدیدہو گا یاعورت کی صحت اتنی کمزور ہو کہ نئے بچے کی پیدائش سے دونوں میں سے کسی کی جان کو خطرہ ہو، توان صورتوں میں حمل ساقط کرناجائز ہے جبکہ جان پڑ جانے کے بعد حمل کو ساقط کرنا مطلقا ناجائز وحرام ہے، جب حمل کی مدت ایک سو بیس دن ہو جاتی ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔

     صورت مسئولہ میں آپ کی زوجہ کی کوئی ایسی ضرورت و مجبوری والی کیفیت نہیں ہے جس کی وجہ سے حمل گرانے کی شرعاً اجازت ہو لہذا اس حمل کو نہ گرایا جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم