Khawateen Ke Liye Artificial Jewellery Pehnne Ka Hukum

خواتین کے لیےآرٹیفیشل جیولری پہننے کا حکم ؟

مجیب:  محمد ساجد  عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: JTL- 1307

تاریخ اجراء: 09 ربیع الثانی   1445 ھ/25 اکتوبر     2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا خواتین کا آرٹیفیشل جیولری استعمال کرنا،  جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فی زمانہ تعامل و عموم بلوٰی  کی وجہ سے خواتین کا آرٹیفیشل جیولری استعمال کرنا، جائز ہے۔

   تفصیل کچھ یوں ہے کہ آرٹیفیشل جیولری  سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں سے بنائی گئی ہوتی ہے  اوراصولی احکام کے اعتبار سے  سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں سے بنے زیورات کا استعمال  مردوں اور عورتوں دونوں  کے حق میں ناجائز ہے ۔حدیث اور فقہاء کے فرامین  میں اس کی ممانعت واضح طور پر بیان فرمائی گئی ہے، چنانچہ سنن ابو داؤد اور سنن ترمذی وغیرہ  میں حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:” أن رجلا جاء إلى النبي صلى اللہ عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: «ما لي أجد منك ريح الأصنام» فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: «ما لي أرى عليك حلية أهل النار» فطرحه، فقال: يا رسول اللہ، من أي شيء أتخذه؟ قال: «اتخذه من ورق، ولا تتمه مثقالا» “ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس نے تانبے کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص سے فرمایا : ”مجھے کیا ہوا کہ میں تم سے بتوں کی بو پاتا ہوں۔“اس نے وہ پھینک دی۔ پھر آیا تو اس  نے لوہے کی انگوٹھی پہنی ہوئی  تھی۔ تو فرمایا کہ :”مجھے کیا ہوا کہ تم پر دوزخیوں کا زیور دیکھتا ہوں۔“  اس نے وہ پھینک دی۔ پھر عرض کیا یارسول اللہ کس چیز کی انگوٹھی بناؤں؟ فرمایا:” چاندی کی اور اس کی ایک مثقال پوری نہ کرو۔‘‘(سنن أبي داود، جلد4، صفحہ 90، حدیث  4223، مکتبہ عصریہ، بیروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ”  اسلام نے پیتل کے زیور ہر مسلمان کے لیے منع فرمائے خواہ مرد ہو یا عورت،انگوٹھی چھلہ بھی زینت کے لیے ہے ،یہ بھی پیتل کا ممنوع ہے۔۔۔۔  پیتل لوہے کا  زیور  مرد وعورت سب کو ہی حرام ہے۔“(مراٰۃ المناجیح ، جلد6، صفحہ 118، قادری پبلشرز، لاھور)

   ایک اور حدیث پاک الجامع الصغیر للسیوطی اور اس کی شرح السراج المنیر  کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص فتح  مکہ کے سال مقام صفا پر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کی بارگاہ میں بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا اور اس کے ہاتھ میں لوہے کی انگوٹھی تھی۔ جسے دیکھ کر حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے  ارشاد فرمایا: ”(ما طهر اللہ كفا فيها خاتم من حديد) أي ما نزهها فالمراد لطهارة المعنوية فيكره التختم بالحديد (تخ طب) عن مسلم بن عبد الرحمن بإسناد حسن“ترجمہ: ”اللہ تعالی اس ہاتھ کو پاک نہ کرے جس میں لوہے کی انگوٹھی ہے۔“(الحدیث) یعنی اسے منزہ نہ کرے ، اس سے مراد معنوی طہارت ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا مکروہ ہے۔ یہ حدیث امام بخاری نے تاریخ میں اور امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں مسلم بن عبد الرحمن سے سندِ حسن کے ساتھ روایت کی ہے۔(السراج المنير شرح الجامع الصغير ، جلد3، صفحه255، مطبوعہ خيريہ، مصر)

   ایک اور صحیح حدیث حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ” نهى عن خاتم الذهب وعن خاتم الحديد “ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےسونے کی انگوٹھی اور لوہے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔(شعب الإيمان، جلد8، صفحہ 355، حدیث: 5934، مکتبۃ الرشد ، الریاض)

   رد المحتار میں ہے:”وفي الجوهرة والتختم  بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء“ترجمہ: جوہر ہ میں ہے کہ لوہے ، پیتل ، تانبے اور سیسے کی انگوٹھی مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے۔ (رد المحتار، جلد6، صفحه 359، دار الفكر، بيروت)

   امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ جدالممتارمیں لکھتے ہیں:” والممنوع فی غیر النقدین من الصفر والنحاس والحدید والرصاص انماھو التحلی بہ لتصریحھم بتحریم التختم بھا رجالا ونساء فکذا سائر انواع الحلی لا غیر“ترجمہ: اورسونے چاندی کے علاوہ پیتل،تانبے،لوہے اورسیسے میں جو ممنوع ہے وہ ان کا بطور زیور استعمال ہے،کیونکہ علماء نے صراحت کی ہے کہ ان دھاتوں کی انگوٹھی پہننا مردوعورت سبھی کے لیے حرام  ہے ۔ اسی طرح زیورکی تمام قسمیں ہیں ،زیورکے علاوہ ان دھاتوں سے نفع اٹھانا حرام نہیں ہے ۔ (جدالممتار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی اللبس،ج07،ص23،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اسی طرح فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں :” چاندی سونے کے سوا  لوہے ، پیتل، رانگ کا زیور عورتوں کو بھی مباح نہیں، چہ جائیکہ مردوں کے لئے۔۔۔فی الشامیۃ عن الجوھرۃ التختم بالحدید والصفر والنحاس والرصاص مکروہ للرجال والنساء انتھی، وفیھا عن غایۃ البیان التختم بالذھب والحدید والصفر حرام(فتاوی رضویہ ،جلد22،صفحہ 153 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   یونہی فتاوی رضویہ کے ایک دوسرے مقام پر ہے:”والنساء والرجل سواء فی کراھۃ لبس النحاس ترجمہ: اور عورتیں اورمرد  تانبے کے استعمال کے مکروہ ہونے میں برابر ہیں( یعنی دونوں کے لئے مکروہ ہے۔) (فتاوی رضویہ ،ج22،ص150 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

حکم میں تبدیلی و رخصت کی تفصیل:

   حدیث وفقہ کی روشنی میں بیان کردہ اصولی حکم  واضح ہے،لیکن ہمارے زمانے وبلاد میں  خواتین آرٹیفیشل زیور بکثرت استعمال کرتی ہیں، کیونکہ سونے چاندی کی بنسبت یہ سستا بھی ہوتا ہے اور مختلف قسم کے کلرز و ڈیزائن کی ورائٹی دستیاب ہونے کی وجہ سے کپڑوں کی مناسبت سے جیولری اختیار کرنا آسان ہوتا ہے۔ اور اس کا استعمال صالحات اور فاسقات  ہر طرح  کی خواتین  میں رائج ہے اور بلا شبہ بلادِ کثیرہ میں بکثرت رائج ہونے والی صورت، جسے ”عرفِ عام“  کہا جاتا ہے، وہ  متحقق ہے۔ بلکہ خواتین میں اس کا رواج عام ہوئے بھی  چونکہ ایک عرصہ ہو چکا ہے اور ایسے زیورات استعمال کرنے کی عادت خواتین میں  پختہ ہوچکی۔ جس کی وجہ سے  اب ان کو اس سے باز رکھنا انتہائی مشکل و باعثِ حرج امر ہے ۔لہذا یہاں عموم بلوٰی کا تحقق ماننا بھی بعید نہیں۔

   اور علماء فرماتے ہیں کہ تعامل و  عرفِ عام جب متحقق ہو جائے،تو اس کی وجہ سے  نص کواگرچہ بالکلیہ ترک تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن  منصوص حکم میں تخصیص کی جا سکتی ہےاور قیاس کو ترک کیا جاسکتا ہے   بلکہ اگر معاملہ بلوٰی کی حد تک ہو ،تو منصوص حکم میں تخفیف کا دائرہ مزید وسیع ہو جاتا ہے ۔ لہذا تعامل و بلوٰی کی وجہ سے اب  اگر کوئی خاتون آرٹیفیشل زیور پہنے ،تو اس پر گناہ کا حکم نہیں ہوگا۔ اور اس معاملے میں  وارد ہونے والی نصوص (احادیث ) کے حکم میں تخصیص کی جائے گی یعنی  ممانعت کا حکم فقط  مردوں تک خاص رکھا جائے گاکہ اصلِ نص انہی کے بارے میں وارد ہے۔

   علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:” ان العرف العام یصلح مخصصا کما  مر عن التحریر  ویترک بہ القیاس کما صرحوا بہ فی مسئلۃ الاستصناع“ترجمہ: عرفِ عام مخصِص بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ، جیسا کہ التحریر کے حوالے سے پیچھے گزرا اور اس کی وجہ سے قیاس کو بھی ترک کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ فقہائے کرام نے استصناع والے مسئلے میں اس کی صراحت کی ہے۔(مجموعہ رسائل ابن عابدین، رسالہ نشر العرف ،جلد2،  صفحہ 158، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

      تعامل کی وجہ سے منصوص حکم میں تخصیص درست ہونے کے حوالے سے علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ’’الذخیرۃ البرھانیۃ‘‘ سے نقل کرتے ہیں:”والتعامل حجۃ  یترک بہ القیاس ۔۔۔۔ وتخصيص النص بالتعامل جائز، ألا ترى أنا جوزنا الاستصناع للتعامل والاستصناع بيع ما ليس عنده وأنه منهي عنه، وتجويز الاستصناع بالتعامل تخصيص منه للنص الذي ورد في النهي عن بيع ما ليس عند الإنسان لا ترك للنص أصلاً؛ لأنا عملنا بالنص في غير الاستصناع۔۔۔۔ وبالتعامل لا يجوز ترك النص أصلاً، وإنما يجوز تخصيصه “ملتقطا ترجمہ: تعامل ایک ایسی حجت ہے جس کی وجہ سے قیاس کو ترک کیا جا سکتا ہے اور تعامل کی وجہ سے نص کی تخصیص جائز ہے ۔ کیا آپ نہیں  دیکھتے  کہ ہم نے استصناع کو تعامل کی وجہ سے جائز قرار دیا، حالانکہ استصناع ایسی چیز کی بیع ہے جو انسان کے پاس ہوتی ہی نہیں اور یہ ایک ممنوع عمل ہے۔ اور استصناع کو تعامل کی وجہ سے جائزقرار دینا در اصل تعامل کی وجہ سے اس نص کی تخصیص کرنا ہے جوغیر موجود چیز کی بیع کی ممانعت کے حوالے سے مروی ہوئی ہے، یہ نص کا بالکلیہ ترک نہیں ہے، کیونکہ ہم نے استصناع کے علاوہ معاملات میں نص پر عمل برقرار رکھا ہے۔اور تعامل کی وجہ سے نص کو بالکل ترک کر دینا جائز نہیں ، لیکن  نص کی تخصیص کر دینا جائز  ہوتاہے۔(مجموعہ رسائل ابن عابدین، رسالہ نشر العرف ،جلد2،  صفحہ 159، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک جگہ لکھتے ہیں :”بالجملہ بحمداللہ تعالی بدلائل قاطعہ واضح ہوا کہ علمائے کرام جس عرف عام کو فرماتے ہیں کہ قیاس پر قاضی ہے اور نص اس سے متروک نہ ہوگا ،مخصوس ہوسکتاہے وہ یہی عرف حادث شائع ہے کہ بلاد کثیرہ میں بکثرت رائج ہو۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ606، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

تعامل و بلوی کی وجہ سےملنے والی  رخصت کے چند نظائر:

   تعامل و بلوی کی وجہ سے حکم میں تخفیف ہو جاتی ہے، اس کے چند نظائر بھی درج ذیل ہیں :

    (1)اسپرٹ  ایک قسم کی شراب ہے۔ اور مفتٰی بہ قول کے مطابق یہ  نہ صرف حرام ہے،بلکہ نجس و ناپاک  بھی ہے۔ امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کے زمانے میں ایک مخصوص قسم کا اسپرٹ والا پڑیا کا  رنگ اہل ہندکے مابین  رائج ہوگیا تھااور اس کا رواج ابتلائے عام کی حد تک پہنچ گیا، تو امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے  یہ فتوی دیا کہ اب اس پڑیا کے رنگ کو ناپاک قرار  نہیں دیا جائےگا ورنہ  بے شمار مسلمانوں کو گنہگار قرار دینا لازم آئے گا، چنانچہ آپ لکھتے ہیں : 

   ” پڑیا کی نجاست پر فتوٰی دئے جانے میں فقیر کو کلام کثیر ہے ،ملخص اُس کا یہ کہ پُڑیا میں اسپرٹ کا ملنا اگر بطریقہ شرعی ثابت بھی ہو، تو اس میں شک نہیں کہ ہندیوں کو اس کی رنگت میں ابتلائے عام ہے اور عموم بلوے نجاست متفق علیہا میں باعث تخفیف۔’’حتی فی موضع النص القطعی کمافی ترشش البول قدر رؤس الابرکما حققہ المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر الخ (فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ381، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ایک اور فتوے میں لکھتے ہیں :”بادامی رنگ کی پُڑیا میں تو کوئی مضائقہ نہیں اور رنگت کی پُڑیا سے ورع کے لیے بچنا اولیٰ ہے،پھر بھی اس سے نماز نہ ہونے پر فتوٰی دینا آج کل سخت حرج کا باعث ہے۔’’والحرج مدفوع بالنص وعموم البلوی من موجبات التخفیف لاسیما فی مسائل الطھارۃ والنجاسۃ‘‘لہذا اس مسئلہ میں مذہب حضرت امام اعظم وامام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہما سے عدول کی کوئی وجہ نہیں،ہمارے ان اماموں کے مذہب پر پُڑیا کی رنگت سے نماز بلاشبہ جائز ہے۔ فقیر اس زمانے میں اسی پر فتوٰی دینا پسند کرتا ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد04، صفحہ390، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    (2)یونہی حقہ والے مسئلے سے متعلق لکھتے ہیں:

   ” بالجملہ عندالتحقیق اس مسئلہ میں سواحکم اباحت کے کوئی راہ نہیں ہے،خصوصاً  ایسی حالت میں کہ عجماً وعرباً وشرقاً وغرباً عام مومنین بلاد وبقاع تمام دنیاکو اس سے ابتلا ہے توعدم جوازکاحکم دینا عامہ امت مرحومہ کومعاذاﷲ فاسق بنانا ہے،جسے ملت حنفیہ سمحہ سہلہ غرابیضا ہرگزگوارا نہیں فرماتی، اسی طرف علامہ جزری نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے: ’’فی الافتاء بحلہ دفع الحرج عن المسلمین‘‘

   اور اسے علامہ حامد عمادی پھر منقح علامہ محمدشامی آفندی نے برقراررکھا ۔اقول:’’ولسنا نعنی بھذا ان عامۃ المسلمین اذا ابتلوا بحرام حل بل الامران عموم البلوٰی من موجبات التخفیف شرعا وماضاق أمر إلا إتسع فاذا وقع ذٰلک فی مسئلۃ مختلف فیھا ترجح جانب الیسر صونا للمسلمین عن العسر ولایخفی علی خادم الفقۃ ان ھذا کماھوجار فی باب الطھارۃ والنجاسۃ کذٰلک فی باب الاباحۃ والحرمۃ ولذا تراہ من مسوغات الافتاء بقول غیرالإمام الأعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ کما فی مسئلۃ المخابرۃ وغیرھا مع تنصیصھم بانہ لایعدل عن قولہ الی قول غیرہ الا لضرورۃ بل ھو من مجوزات المیل الٰی روایۃ النوادر علٰی خلاف ظاھرالروایۃ کما نصوا علیہ مع تصریحھم بان مایخرج عن ظاھرالروایۃ فھو قول مرجوع عنہ ومارجع عنہ المجتھد لم یبق قولا لہ وقد تشبث العلماء بھٰذا فی کثیر من مسائل الحلال والحرام ففی الطریقۃ وشرحھا الحدیقۃ فی زماننا ھذا لایمکن الاخذ بالقول الاحوط فی الفتوی الذی افتی بہ الائمۃ وھو مااختارہ الفقیہ ابواللیث انہ ان کان فی غالب الظن ان اکثرمال الرجل حلال جاز قبول ھدیتہ ومعاملتہ والالا اھ  ملخصا‘‘

   ’’وفی ردالمحتار من مسئلۃ بیع الثمار لایخفی تحقق الضرورۃ فی زماننا، ولاسیما فی مثل دمشق الشام، وفی نزعھم عن عادتھم حرج، وماضاق  الامر الا اتسع ولایخفی ان ھذا مسوغ للعدول عن ظاھر الروایۃ   اھ  ملخصا، وفی مسئلۃ العلم فی الثوب ھو ارفق باھل ھذا الزمان لئلا یقعوا فی الفسق والعصیان  اھ  وفیہ من کتاب الحدود ومقتضی ھذا کلہ ان  من زفت الیہ زوجتہ لیلۃ عرسہ ولم یکن یعرفھا لایحل لہ وطؤھا مالم تقل واحدۃ اواکثر انھا زوجتک وفیہ حرج عظیم لانہ یلزم منہ تاثیم الامۃ  اھ  ملخصا الٰی غیرذٰلک من مسائل یکثر عدھا ویطول سردھا فاندفع ماعسٰی ان یوھم من قول الفاضل اللکنوی ان عموم البلوی انما یؤثر فی باب الطھارۃ والنجاسۃ لافی باب الحرمۃ والاباحۃ صرح بہ الجماعۃ اھ ۔(فتاوی رضویہ، جلد25، صفحہ89تا 91، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    (3) تانبے اور پیتل کے برتن کھانے پینے کے لئے استعمال کرنے ہوں،تو ان پر قلعی کر کے پھر انہیں استعمال کرنا چاہیے۔ بے قلعی کیے تانبے اور پیتل کے برتن میں  کھانا پینا مکروہ ہے کہ جسمانی ضرر کا باعث ہے۔ (کما فی   الدر المختارورد المحتار،6/ 343)لیکن جب امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے یہ ملاحظہ فرمایا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اس میں مبتلا ہو چکی ہے،تو فرمایا اب اس حکم میں توسیع و نرمی پیدا کرنا لازم ہے یعنی اب  کراہت کا حکم نہیں ہونا چاہیے۔چنانچہ آپ جد الممتار میں لکھتےہیں:” قلت: وقد شاع ذلك في زماننا في عامة المسلمين فلا بد من التوسيع “ترجمہ: میں کہتا ہوں: بلا شبہ ہمارے زمانے میں بے قلعی کیےبرتنوں کا استعمال عامۃ المسلمین میں رواج پا چکا ہے، لہذا اب وسعت دینا لازم ہے۔(جد الممتار،جلد7، صفحہ12، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اس کے علاوہ بھی نظائر پیش کیے جا سکتے ہیں، لیکن اسی قدر بھی کافی ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم