Khawateen Ka Contouring Karwana Kaisa ?

خواتین کا کنٹورنگ کروانا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:19

تاریخ اجراء: 09ذوالحجۃ الحرام 1442ھ/20جولائی 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ خواتین کا کنٹورنگ (contouring) کروانا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کنٹورنگ((Contouringجس میں خوبصورتی کے لیے چہرے کے خدوخال میں مختلف انداز سے تبدیلی کی جاتی ہے، مثلاً رُخسار کے ابھرے پَن کو بیٹھا ہوا محسوس کروایا جاتا ہے، یونہی  موٹی ناک کو باریک ظاہر کیا جاتا ہے،یہ سب میک اپ (Make Up)کے ذریعے کیا جاتا ہے،یونہی بالوں میں بھی کنٹورنگ کی جاتی ہے جس میں  بالوں کو مختلف کلر کےشیڈ دیئے جاتے ہیں۔

   خواتین کا  کنٹورنگ(contouring) کروانا ، جائز ہے، البتہ چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

(1)کنٹورنگ میں استعمال ہونے والا موادیعنی   پاؤڈر وغیرہ ناپاک اشیاء سے تیار شدہ نہ ہو اور اگر بالیقین معلوم ہوجائے کہ   کنٹورنگ پاؤڈر یا کریم ناپاک اشیاء سے بنی ہو ئی ہے یا اس میں پاک اجزاء کے ساتھ ساتھ ناپاک اجزا بھی شامل ہیں  ،تو اس کا استعمال کرنا ، جائز نہیں  ۔

(2)ایسا میک اپ (Make Up) نہ ہو  کہ جو بدن  پر   چپک   جانے کی وجہ سے جِلد  تک پانی پہنچنے سے  مانع (رکاوٹ ) ہو، کیونکہ   اس کے لگے ہونے کی صورت میں وُضو اور غسل نہیں ہو گا اور اگر بالفرض ایسا میک اپ ہو، تو وضو و غسل میں اتارنا ، ممکن ہو اور وضو میں اور فرض  غسل میں اتار بھی دیا جائے۔

 (3)اور  بالوں میں کنٹورنگ کروانے میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ  بالوں کو  سیاہ یا سیاہ سے ملتا جلتا خضاب یا کلر  نہ لگایاجائے،کہ بالوں کو سیاہ خضاب  Black Color)) لگانا، ناجائز  و گناہ ہے ، الغرض    کسی بھی خلافِ شرع طریقے سے کنٹورنگ  نہ  کی جائے، ورنہ جائز نہ ہو گی ۔

   ناپا ک چیزکے بیرونی استعمال کا حکم بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’شراب حرام بھی ہے اورنجس بھی،اس کاخارج بدن پربھی لگانا، جائزنہیں اورافیون حرام ہے نجس نہیں،خارج بدن پراس کااستعمال جائزہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ198، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   وضو میں چہرہ دھونا فرض ہونے کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمْ وَاَیۡدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوۡا بِرُءُ وۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ ؕوَ اِنۡ کُنۡتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوۡا﴾ ترجمۂ کنزا لعرفان: اے ایمان والو! جب تم نماز کی طرف کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤ ں دھولو اور اگر تم بے غسل ہو، تو خوب پاک ہوجاؤ۔ (القرآن الکریم ،پارہ 6،سورۃ المائدۃ،آیت 6)

   مذکورہ بالا آیت کے تحت  غَسل کا معنی بیان کرتے ہوئے امام ابو بکر احمد  بن علی  جصاص  رازی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(سالِ وفات:370ھ/ 980ء) لکھتے ہیں:’’والغَسل : اسم لامرار الماء علی الموضع وانما علیہ امرار الماء حتی یجری علی الموضع‘‘ ترجمہ:اور غَسل،عضو (کی کھال(skin)  تک پانی پہنچا دینے کا نام ہے، لہٰذا وضو کرنے والے پر پانی پہنچانا لازم ہے، حتی کہ وہ عضو پر بہہ جائے ۔(احکام القرآن للجصاص،جلد2،صفحہ 470،مطبوعہ کراچی )

   وضو میں عضو کے خشک رہ جانے کے متعلق  حدیث پاک  میں ہے:’’عن عبد اللہ بن عَمرو رضی اللہ عنه ، قال: رجعنا مع رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم من مكة إلى المدينة حتى إذا كنا بماء بالطريق تعجل قوم عند العصر، فتوضئوا وهم عجال فانتهينا إليهم وأعقابهم تلوح لم يمسها الماء فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ويل للأعقاب من النار أسبغوا الوضوء ‘‘ترجمہ:حضرت عبداﷲ بن عَمرو  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ  وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف لوٹے حتی کہ جب ہم راستے میں پانی کی جگہ  پہنچے  ، تو عصر کے وقت ایک قوم نے جلدی کی اور  جلدی میں وضو کیا ، ہم اُن کے پاس آئے  ،تو  اُن کی ایڑیاں پانی نہ لگنے کے سبب چمک رہی تھیں ،تب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا :اِن ایڑیوں کے لئے آگ کا ویل ہے، (لہٰذا)وضو پوراکرو۔(صحیح مسلم ،کتاب الطھارۃ،باب وجوب غسل الرجلین ۔۔،جلد1،صفحہ157، مطبوعہ لاهور)

   مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1391ھ/ 1971ء) لکھتے ہیں:وَیْل کے معنی افسوس بھی ہیں اور دوزخ کے ا یک طبقے کا نام بھی ہے،یہاں دوسرے معنی مراد ہیں،یعنی اگر اعضائے وضو میں سے کوئی عضو ناخن برابر سوکھا رہ گیا ،تو وہ شخص ویل میں جانے کا مستحق ہے۔‘‘(مراٰۃ المناجیح، باب سنن الوضو،جلد01، صفحہ271، مطبوعہ  نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   وضو صحیح ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے علامہ حسن بن عمارشُرُنبلالی حنفی رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات:1069ھ/ 1658ء) لکھتے ہیں:’’وشرط صحته أي الوضوء :ثلاثة، الأول :عموم البشرة بالماء الطهور و زوال ما يمنع وصول الماء إلى الجسد ‘‘ترجمہ:اور وضو صحیح ہونے کی تین شرائط ہیں:پہلی یہ کہ  جن اعضا كو وضو میں  دھونا ضروری ہےان کی جلد تک پاک پانی کا پہنچنا اور (ایک شرط یہ ہےکہ)جو چیز جسم تک پانی پہنچنے سے مانع ہو،اُس کا نہ ہونا۔(نور الایضاح ،  فصل فی احکام الوضو، صفحہ48، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   بدن تک پانی  پہنچنے سے مانع چیز کے لگے ہونے کی صورت میں وضو نہ ہونے کے متعلق امام کمال الدین  ابنِ ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:861ھ/1456ء) لکھتےہیں:’’ولو  لزق باصل ظفرہ  طین یابس  ونحوہ او بقی  قدر راس الابرۃ  من موضع الغسل ، لم یجز ‘‘ترجمہ:اگر اس(یعنی وضو کرنے والے) کے ناخن کےاوپر خشک مِٹّی یا اس کی مِثْل کوئی اور چیز  چِپک گئی یا دھونے والی جگہ پرسُوئی کی نوک کے برابر جگہ  باقی رہ گئی،  تو جائز نہیں ہے،  یعنی وُضو نہیں ہو گا۔(فتح القدیر، کتاب الطھارۃ ،جلد1، صفحہ12 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز... والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل ‘‘ترجمہ: اگر وُضو والی کسی جگہ پرسُوئی کی نوک کے برابر کوئی چیز باقی ہو یا ناخن کے اوپر خشک یا تر مِٹّی چپک جائے ،  تو جائز نہیں ، یعنی وضو و غسل نہیں ہو گا... اورخضاب جب جِرم دار ہو اور خشک ہو جائے ، تو وضو اور غسل کی تَمامیَّت سے مانِع (یعنی مکمل ہونے میں رکاوٹ )ہے، یعنی اس کی وجہ سے وضو اور غسل مکمل نہیں ہو گا۔(فتاوی  عالمگیری ،کتاب الطھارۃ ،الباب الاوّل فی الوضو  ،جلد1،صفحہ4 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیاہ خضاب  لگانے کی ممانعت کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے:عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال:يكون قوم في آخر الزمان يخضبون بهذا السواد، كحواصل الحمام، لايجدون رائحة الجنة ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:آخر ی زمانے ميں ایسے لوگ ہوں گے جو کبوتروں کے سينوں جيسا سياہ خضاب لگائیں گے ،وہ لوگ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھ سکيں گے۔(سنن ابو داؤد ،کتا ب الترجّل ،باب ما جاء فی  خضاب السواد ،جلد2 ،صفحہ 226 ،مطبوعہ لاهور )

   مذکورہ  حدیثِ پاک  کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1391ھ/ 1971ء)لکھتےہیں:” اس حدیث سے صراحۃمعلوم ہوا کہ سیاہ خضاب حرام ہے، خواہ سر میں لگائے یا داڑھی میں، مرد لگائے یا عورت ۔“ (مرأۃالمناجیح،جلد06،صفحہ166،مطبوعہ ضیاء القرآن  پبلی کیشنز،لاھور)

   بالوں کو سیاہ خضاب کرنا مُثلہ یعنی اللہ پاک کی تخلیق کو بدلنا  ہے،جیساکہ سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” (امام) طبرانی معجم کبیر میں بسند حسن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من مثل بالشعر فلیس لہ عندﷲ خلاق(جوبالوں کے ساتھ مثلہ کرے اللہ پاک کے یہاں اس کا کچھ حصہ نہیں) والعیاذ باللہ رب العالمین ، یہ حدیث خاص مسئلہ مُثلہ مُو(بالوں کے  بدلنے کے بارے ) میں ہے ، بالوں کا مثلہ یہی جو کلمات ائمہ سے مذکور ہوا کہ عورت سر کے بال  منڈالے یا مرد داڑھی،یامردخواہ عورت بھنویں (منڈائے)کما یفعلہ کفرۃ الھند فی الحداد (جیسے ہندوستان کے کفار سوگ مناتے ہوئے ایسا کرتے ہیں)یا سیاہ خضاب کرےکما فی المناوی والعزیزی والحفنی شروح الجامع الصغیر، یہ سب صورتیں مثلہ مُومیں داخل ہیں اور سب حرام(ہیں) ۔“(فتاویٰ رضویہ ،کتاب الحظر والاباحۃ ،جلد22 ،صفحہ 664 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم