Khatme Quran Ke Moqe Par Mithai Waghera Bantna Kaisa?

ختم قرآن کے موقع پر مٹھائی وغیرہ بانٹنا کیسا ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7624

تاریخ اجراء:26 رَبیعُ الآخر1443ھ/02 دسمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ختم قرآن کےموقع پر اہل ِخانہ اور دیگر احباب کو مٹھائی بانٹی جاتی ہے۔ اس میں شرعاً  کوئی مضائقہ تو نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرآنِ مجید کا حِفْظ مکمل کرنا، بلا شبہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اُس کی نعمت ہے اور اِس نعمت کے حصول وتکمیل  پر اظہارِ مُسرَّت کرنا اور شرعی حُدود میں رہتے ہوئے  خوشی منانا بلاشبہ جائز  اور پسندیدہ چیز ہے، چنانچہ حضرت عمرِ فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے ثابت ہے کہ آپ نے سورۃ البقرۃ کو اُس کے احکام سمیت سیکھنا شروع کیا اور بارہ سال کے عرصے میں مکمل کیا، جب تکمیل کی تو ”ختمِ سورۃ البقرۃ“ کی خوشی میں اونٹ کو نحر کیا اور لوگوں کو کھلایا۔

   حصولِ نعمت پر خوشی منانے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَترجمہ کنزالعرفان:’’تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ، یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘(پارہ11، سورہ یونس، آیت58)

   مذکورہ  آیتِ کریمہ میں اگرچہ فضل ورَحمت کی مراداسلام و قرآن ذکر کیا گیا ہے لیکن  فن تفسیر کا  اُصول ہے کہ خصوصِ سبب کا نہیں ہوتا بلکہ عمومِ لفظ  کا اعتبار ہوتا ہے،یعنی لفظوں میں جب فضل و رحمت پر خوشی منانے کا فرمایا گیا ہے، تو ہر فضل و رحمت اس میں شامل ہے اور  ”حفظِ قرآن“ کی تکمیل بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے،کہ خدا کی  توفیق ہی سے قرآن مجید کا حفظ ہوتا ہے ۔ ”فضل“ کا معنی بیان کرتے ہوئے ماہِر مفرداتِ قرآن، امام  راغب اصفہانی (سالِ وفات:502ھ/1108ء) لکھتے ہیں:’’كل عطية لا تلزم من يعطي يقال لها: فضل۔۔۔وعلی ھذا قولہ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ “ترجمہ:ہر وہ عطیہ کہ جو دینے والے پر لازم نہ ہو، اُسے ”فضل“ کہا جاتا ہے۔اِسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ۔(مفرداتُ الفاظِ القرآن،صفحہ 639،مطبوعہ دار القلم، دمشق)

   شیخ نور الدین عِترحلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1442ھ/2020ء) عمومِ لفظ کے اعتبار والے قاعدے کے متعلق لکھتے ہیں:’’فالمعتمد الذي عليه جمهور الفقهاء والأصوليين والمفسرين وغيرهم«أن العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب»ومن الأدلة على ذلك احتجاج الصحابة والتابعين فمن بعدهم في وقائع كثيرة بعموم آيات نزلت على أسباب خاصة، وكان ذلك الاستدلال شائعا ذائعا بينهم، لا ينكره أحد‘‘ ترجمہ:وہ  معتمد قاعدہ کہ جس پر جمہور فقہائے اسلام، اہلِ اُصول، مفسرین وغیرہم کا اعتماد ہے، وہ یہ ہے کہ عمومِ لفظ کا اعتبار ہو تا ہے، خصو صِ مَحل کا اعتبار نہیں ہو تا۔اِس قاعدے کے دلائل میں سے صحابہ کرام، تابعین اور اُن کے مابعد اَفراد کا مختلف واقعات میں اُن آیات کے عموم سے استدلال کرنا ہے، جو ایک مخصوص  سبب کے متعلق نازل ہوئی  تھیں اور یوں استدلال کرنا، اُن کے مابین عام رائج تھا، جس پر کوئی بھی اِنکار واعتراض نہ کرتا تھا۔ (علوم القرآن الکریم، صفحہ 53، مطبعۃ المصباح، دمشق)

   حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے بالخصوص ”ختم سورۃ البقرۃ“کی صورت میں ہونے والے فضل پر خوشی منائی، چنانچہ امام ابوعبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:671ھ/1273ء)لکھتے ہیں:’’عن ابن عمر قال: تعلم عمر البقرة في اثنتي عشرة سنة، فلما ختمها نحر جزورا  ‘‘حضرت ابنِ عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے بارہ سالوں میں سورۃ البقرۃ کو (اُس کے تمام احکامات سمیت)سیکھا۔ جب آپ نے ”ختم سورۃ البقرۃ“ کیا ،تو (خوشی میں)   ایک اونٹ نحر کیا۔(الجامع لاحکام القرآن  ،جلد1،صفحہ40،،مطبوعہ دار الکتب المصریۃ، قاھرہ)

   ایک شافعی بزرگ عبدالباسِط بن موسیٰ دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:981ھ/1573ء) نے اِس طرح کی محافِل کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں لکھا:’’قد جرت عادة أئمتنا بعقد مجلس أو عمل وليمة عند ختم كتاب معتبر يؤلفونه أو يحفظونه، وأصل ذلك أن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنه تعلم البقرة في بضع عشرة سنة، وفي رواية: اثنتي عشرة سنة، فلما ختمها نحر جزورا شكرا للہ تعالى، وقد اتفق ذلك للحبر شيخ الإسلام ضياء الدين عبد الملك إمام الحرمين عند ختم كتابه الحفيل الجليل المسمى بنهاية المطلب، فإنه عقد مجلسا لتتمته حضرۃ الأئمة الكبار۔۔۔ لذلك وضع وليمة لحاضري مجلسه، حكاه جماعة منهم ابن السبكي في طبقاته، ولما فرغ شيخ الإسلام ابن حجر شرحه على البخاري المسمى بفتح الباري عمل وليمة حافلة۔۔۔وكان المصروف في الوليمة على ذلك نحو خمس مائة دينار۔۔۔وهي سنة كثير من العلماء المعتبرين الورعين، وفي ذلك مصالح وحكم لطيفة تنوف عن الحصر والضبط‘‘ ترجمہ:ہمارے علمائے دین کے ہاں اپنی تصنیف کردہ کتاب یا کسی کتاب کو یاد کرنے پر انعقادِ محفل یا کھانے کے اہتمام کا باقاعدہ طریقہ جاری رہا ہے۔اِس کی اصل حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا فعل ہے کہ جب آپ نےچھ سے زائد یا دوسری روایت کے مطابق تقریباً 12 سال میں سورۃ البقرۃ احکام سمیت سیکھی تو شکرانے میں ایک اونٹ ذبح کیا۔امام الحرمین شیخ الاسلام ضیاء الدین عبدالملک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی جب اپنی کتاب”نھایۃ المطلب“ کو مکمل کیا ،تو جلیل القدر ائمہ کی موجودگی میں  ایک تقریب کا انعقاد کیا۔اِسی مقصد کے پیشِ نظر حاضرین کے لیے طعام کا بھی خصوصی اہتمام کیا۔ اِس واقعہ کو ایک جماعت نے نقل کیا ہے، اُن میں امام ابن السبکی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی  اپنی کتاب ”طبقات الشافعیۃ الکبریٰ“ میں  نقل کیا ہے۔ یونہی جب شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے”فتح الباری شرح صحیح البخاری“ کی تصنیف مکمل کی،  تو کھانے کی ایک بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔اُس دعوت میں کھانے پر تقریباً 500 دینار (سونے کے سکے)خرچ کیے گئے۔یہ کثیر اصحابِ ورع اور معتبر علمائے دین کا  ”طریقہ ِ ختم “ہے۔ایسا کرنے میں بہت سی مصلحتیں  اور حکمتیں ہیں کہ جو ضبطِ بیان سے باہر ہیں۔ (المعید فی ادب المفید والمستفید، القسم الثالث فی آداب درسہ وقراءتہ، صفحہ 81، مطبوعہ المکتبۃ العربیۃ، دمشق)

   فی زمانہ بہت سے اہلِ  علم اپنی کتب کی تقریبِ رُونمائی کرتے ہیں۔ اُن کے لیے  ذکر کردہ جزئیہ میں اِس کا ثبوت موجود ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم