مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:07
تاریخ اجراء: 06ذوالحجۃ الحرام
1442ھ/17جولائی 2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان
شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ خاص کفّار یا فُسّاق کی
طرز کا لباس پہننا کیسا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دریا
فت کردہ مسئلہ کی چند صورتیں ہیں :
(1)ایسا لباس جو خاص کفّار کی طرز كا ہو اور ان کا مذہبی شِعَار (علامت
)ہو،اُسے بغیر کسی شرعی
ضرورت کے پہننا کفر ہے،کیونکہ اس میں کفّار کے ساتھ مشابہت
اختیار کرنا پایا جاتا ہے ، جیسے ہندوؤں کا زنّار باندھنا
یا ہندو پنڈتوں کا خاص مذہبی لباس جو وہ اپنی عبادت کے وقت ہی پہنتے ہیں۔
(2) اور ایسا لباس جو کفّار کا مذہبی شِعَار تو نہ ہو ،مگر ان کی قوم کا
خاص لباس ہو ،جیسے وہ دھوتی جو خاص ہندوؤں کی طرز کی ہویا فاسقوں کی طرز کا مخصوص لباس ہو ، مثلاً
فی زمانہ عورتوں کا(Tights) تنگ اور چست لباس پہننا
، کہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ
نے اسے فُسّاق کی وضع کا لباس قراردیا ،تو ایسا لباس پہننا
مکروہِ تحریمی، ناجائز و گناہ
ہے ۔
(3)اور
ایسا لباس جو کفّار کا مذہبی شعار نہ ہو اور نہ ہی اُن کا
مخصوص لباس ہو،بلکہ عام مسلمان
بھی ویسا لباس پہنتے ہوں،مثلاًمردوں کامہذب انداز کی پینٹ
شرٹ پہننا،تو اُس کا پہننا جائز ہے۔
کسی قوم سے مشابہت اختیار کرنے کے
متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من تشبہ بقوم فھو
منھم‘‘ترجمہ:جو کسی قوم سے مشابہت اختیار
کرے ، تو وہ انہیں میں سے ہے ۔( سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فی لبس
الشھرۃ ،جلد2 ،صفحہ 203،مطبوعہ لاھور)
بیان کردہ حدیثِ پاک کے تحت علامہ علی قاری
حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1014ھ/ 1605ء) لکھتے ہیں:” أي:من
شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف
والصلحاء الأبرار(فهو منهم) : أي فی الاثم والخير “ترجمہ:
یعنی جس نے اپنے آپ کو کفار
کے مشابہ کیا ،مثلا لباس وغیرہ میں یا فساق و فجار کے
مشابہ کیا یا صوفیا ،صلحااور نیک لوگوں کی مشابہت
اختیار کی، تووہ اُنہی کے ساتھ ہو گا، یعنی (بُروں
کے ساتھ )گنا ہ میں اور(اچھوں کے ساتھ ) نیکی میں ۔(مرقاة
المفاتیح، کتاب اللباس،جلد8،صفحہ 222،رقم الحدیث 4347، مطبوعہ
کوئٹہ)
خاتم المحدثین شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ
وفات:1052ھ)لکھتے ہیں:”المتعارف في التشبه هو التلبس بلباس قوم، وبهذا
الاعتبار أورده في (كتاب اللباس)، وهو بإطلاقه يشمل الأعمال والأخلاق واللباس سواء
كان بالأخيار أو بالأشرار... وبالجملۃ حکم المشابہ للشئ حکمہ ،ظاھراً کان اوباطنا “ ترجمہ: مشابہت میں معروف
یہی ہےکہ کسی قوم کا لباس پہن کر اس جیسا حلیہ
اپنا یاجائے ،اسی لیے اس حدیثِ پاک کو کتاب اللباس
میں ذکر کیا گیا ،البتہ
یہ حدیث پاک اپنے اطلاق (مطلق ہونے )کی وجہ سے اعمال،
اخلاق اور لباس وغیرہ سب کو شامل ہے
،خواہ اچھوں کے ہوں یا بُروں کے ...
خلاصہ کلام یہ کہ جو کسی چیز کے مشابہ ہو اس کا حکم
بھی ظاہری اور باطنی
اعتبارسے اس چیز والا ہی ہو تاہے ۔(لمعات
التنقیح ،جلد7،صفحہ356،کتاب اللباس ،الفصل الثانی ،مطبوعہ دار النور
،دمشق )
اور مذکورہ حدیث پاک کو نقل
کرنے کے بعد صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات :1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”یہ حدیث ایک اصل کلی ہے، لباس و
عادات و اطوار میں کن لوگوں سے مشابہت کرنی چاہیے اور کن سے
نہیں کرنی چاہیے۔ کفار و فساق و فجار سے مشابہت
بُری ہے اور اہلِ صلاح و تقویٰ کی مشابہت اچھی ہے
،پھر اس تشبہ کے بھی درجات ہیں اور انھیں کے اعتبار سے احکام
بھی مختلف ہیں۔ کفار و فساق سے تشبہ کا ادنیٰ مرتبہ
کراہت ہے، مسلمان اپنے کو ان لوگوں سے ممتاز رکھے ،کہ پہچانا جاسکے اور غیر
مسلم کا شبہ اس پر نہ ہوسکے۔‘‘ (بھار شریعت ،لباس کا بیان ،حصہ 16،صفحہ407، مکتبۃ
المدینہ ،کراچی)
کفار سے لباس
وغیرہ میں مشابہت
اختیار کرنے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سیّدی
اعلیٰ حضرت امام اہلِسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” اس طرح کے مسائل میں حقِ تحقیق وتحقیقِ حق
یہ ہے کہ تشبہ دو وجہ پرہے: التزامی ولزومی، التزامی
یہ ہے کہ یہ شخص کسی قوم کے طرزووضع خاص اسی قصد سے اختیارکرے
کہ ان کی سی صورت بنائے ان سے مشابہت حاصل کرے حقیقۃً
تشبہ اسی کانام ہے اور لزومی یہ کہ اس کاقصد تومشابہت
کانہیں مگروہ وضع اس قوم کاشعارخاص ہورہی ہے کہ خواہی
نخواہی مشابہت پیداہوگی۔
التزامی میں قصد کی تین
صورتیں ہیں:اول یہ کہ اس قوم کومحبوب ومرضی جان کر اُن سے
مشابہت پسند کرے ،یہ بات اگرمبتدع کے ساتھ ہو،(تو) بدعت اور کفّار کے
ساتھ(ہو ،تو) معاذاﷲ کفر،
حدیث ’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘(جو کسی قوم سے
مشابہت اختیارکرے تو وہ ، انہی میں سے شمارہوگا۔)
حقیقۃً صرف اسی صورت سے خاص ہے۔
دوم: کسی غرض مقبول
کی ضرورت سے اِسے (تشبہ )اختیارکرے وہاں اس وضع کی شناعت اور اس
غرض کی ضرورت کاموازنہ ہوگا اگرضرورت غالب ہو، تو بقدرِضرورت کاوقتِ ضرورت
یہ تشبیہ کفرکیا معنی، ممنوع بھی نہ ہوگا، جس طرح
صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے مروی کہ بعض
فتوحات میں منقول رومیوں کے لباس پہن کر بھیس بدل کر کام
فرمایا او ر اس ذریعہ سے کفار اشرار کی بھاری جماعتوں
پرباذن اﷲ غلبہ پایا۔سوم: نہ تو اُنہیں اچھاجانتا ہے نہ کوئی
ضرورتِ شرعیہ اس پرحامل ہے، بلکہ کسی نفع دنیوی کے لئے
یایوہیں بطورِہزل واستہزاء اس کامرتکب ہوا،توحرام وممنوع ہونے
میں شک نہیں اور اگروہ وضع اُن کفارکامذہبی دینی
شعارہے ، جیسے زنّار، قشقہ، چُٹیا، چلیپا، تو علماء نے اس صورت
میں بھی حکمِ کفردیا
اور فی الواقع صورتِ استہزاء میں حکمِ کفر ظاہرہے ۔
اور تشبہ لزومی
میں بھی حکمِ ممانعت ہے ،جبکہ اکراہ وغیرہ مجبوریاں نہ
ہوں جیسے انگریڑی منڈا، انگریزی ٹوپی، جاکٹ،
پتلون، اُلٹاپردہ، اگرچہ یہ چیزیں کفار کی مذہبی
نہیں مگرآخرشعار ہیں تو ان سے بچنا واجب اور ارتکاب گناہ۔
ولہٰذا علماء نے فسّاق کی وضع کے کپڑے موزے سے ممانعت
فرمائی۔ ۔۔۔اس تحقیق سے روشن ہوگیا
کہ تشبُّہ وہی ممنوع ومکروہ ہے جس میں فاعل کی نیت تشبہ
کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کاشعارِخاص یافی نفسہ شرعاً
کوئی حرج رکھتی ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ
ممانعت نہیں۔(فتاویٰ رضویہ، جلد24،صفحہ534،530،مطبوعہ رضا
فاؤنڈیشن،لاھور)
کفارکا ایسا لباس جوان کا
شعار تو نہ ہو،لیکن اُن کے ساتھ یا فاسقوں کے ساتھ خاص ہو ، اُسے پہننے کے متعلق امام اہلسنت
رحمۃ اللہ علیہ لکھتے
ہیں :”اگر( کوئی لباس) کافروں یا فاسقوں سے کوئی
خصوصیت رکھتاہو، تو پھر اس کا استعمال بھی ناجائز ہے...اور دھوتی(جو خاص
ہندؤوں کی طرز کی ہو ) دو وجوہ کی بناء پر ممنوع قابلِ ترک ہے،
ایک اس لئے کہ ہندؤوں کا لباس ہے۔ ‘‘(فتاوی
رضویہ ،جلد22،صفحہ192،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
تنگ
اور چست لباس پہننے میں وضعِ فُسّاق ہونے کے متعلق امامِ اہلسنت رحمۃاللہ
علیہ لکھتے ہیں: ” یونہی (عورتوں
کے ) تنگ پائنچے بھی، نہ چوڑی دار ہوں، نہ ٹخنوں سے نیچے، نہ
خوب چست بدن سے سلے، کہ یہ
سب وضعِ فُسّاق ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ،
جلد22،صفحہ162،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاهور)
کفار سے اُن کے
مذہبی شِعَار میں مشابہت اختیار کرنے کے متعلق موسوعۃ
الفقہیہ میں ہے:’’ ذهب الحنفية على الصحيح
عندهم،والمالكية على المذهب، وجمهور الشافعية إلى:أن التشبه بالكفار في اللباس
الذي هو شعار لهم به يتميزون عن المسلمين، يحكم بكفر فاعله ظاهرا، أي في أحكام
الدنيا‘‘ ترجمہ: صحیح مذہب پر
احناف، مالکیہ اور جمہور شافعیہ کا یہ مذہب ہے کہ کفار
کےساتھ ایسے لباس میں مشابہت
اختیار کرنا، جو ان کا شِعَار ہو اور وہ اُس لباس کے ذریعے مسلمانوں
سے ممتاز ہوتے ہوں ،توایسے لباس میں اُن کی مُشابَہَت
اختیارکرنے والے پر ظاہراً یعنی دنیوی احکام
میں کفر کا حکم دیا جائے گا۔(الموسوعۃ
الفقھيہ الکویتیہ ،جلد 12،صفحہ 5 ، مطبوعہ
وزارتِ اوقاف، کویت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟