Khane Mein Lal Beg Ya Machar Gir Jaye To Is Khane Ka Kya Karen ?

کھانے میں لال بیگ یا مچھر گرجائے تو اس کھانے کو کھانے یا  ضائع کرنے کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12376

تاریخ اجراء:        28محرم الحرام 1444 ھ/27اگست2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ کھانے میں اگر لال بیگ یا مچھر گرجائے تو اس کھانے کا کیا کریں؟ اُنہیں نکال کر وہ کھانا کھالیں یا پھر اس کھانے کو ضائع کردیں ؟؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جن جانوروں میں بہتاخون نہیں ہوتا، وہ جانور پانی میں گر جائیں یا  پانی میں گر کرمرجائیں تو پانی ناپاک نہیں ہوتا، لہذا پوچھی گئی صورت  میں لال بیگ یا مچھر کے کھانے میں گرنے سے کھانا  ،ناپاک  نہیں ہوگا ۔ ان چیزوں کو نکال کر وہ  کھانا کھایا جا سکتا ہے ۔ البتہ اگر طبیعت اس کھانے کی طرف مائل نہ ہو تو ممکنہ صورت میں کسی جانور یا پرندے کو وہ کھانا کھلادیا جائے تاکہ وہ کھانا ضائع نہ ہواور مال کا اسراف نہ ہو۔ ہاں! اگر اس کھانے میں لال بیگ یا مچھر کے اجزاء بکھر چکے ہوں تو اب اسے کھانا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔

   جن جانوروں میں بہتاخون نہیں ہوتا ، ان کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری، بدائع الصنائع وغیرہ میں مذکور ہے:والنظم للاول“ موت ما ليس له نفس سائلة في الماء لا ينجسه كالبق والذباب والزنابير والعقارب ونحوهایعنی پانی اس جاندار کی موت سے نجس نہیں ہوتا  جس میں بہتا خون نہ ہو، جیسے کھٹمل، مکھی، بھڑ اور بچھو وغیرہ۔“(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 24،مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”جن جانوروں میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا جیسے مچھر، مکھی وغیرہ، ان کے مرنے سے پانی نجس نہ ہوگا۔ مکھی سالن وغیرہ میں گر جائے تو اسے غوطہ دے کر پھینک دیں اور سالن کو کا م میں لائیں۔ “(بہار شریعت، ج 01، ص  338، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   حشرات الارض کھانے میں گریں اور ان کے اجزاء بکھر جائیں تو اس کھانے کے متعلق فتاوٰی شامی میں منقول ہے:”في التتارخانية: دود لحم وقع في مرقة لا ينجس ولا تؤكل المرقة إن تفسخ الدود فيها اهـ أي: لأنه ميتة وإن كان طاهرا. قلت: وبه يعلم حكم الدود في الفواكه والثمار“ترجمہ: ”تتارخانیہ میں ہے کہ گوشت کا کیڑا اگر شوربے   میں گرجائے تو وہ نجس نہیں ہوگا۔ البتہ اگر وہ کیڑا اس میں پھٹ گیا ہوتو اس شوربے یا سالن کو نہیں کھا سکتے  اس کی وجہ یہ ہے کہ  یہ کیڑا  پاک ہونے کے باوجودمردار ہے (اور مردار کھانا جائز نہیں)علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اسی سے  خشک اور تر پھلوں میں پائے جانے والے کیڑے کا بھی حکم معلوم ہوگیا ۔  (رد المحتار  مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 620، مطبوعہ کوئٹہ)

   درِ مختار میں ہے:”فلو تفتت فيه نحو ضفدع جاز الوضوء به لا شربه لحرمة لحمه“یعنی اگر( آبی) مینڈک کے اجزاء پانی میں بکھر جائیں، تب بھی اس پانی سے وضو جائز ہے لیکن اس کا گوشت  حرام ہونے کی وجہ سے اس پانی کو پینا جائز نہیں ۔ 

(لحرمة لحمه) کے تحت  فتاوٰی شامی میں ہے:”لأنه قد صارت أجزاؤه في الماء فيكره الشرب تحريما كما في البحر۔“ترجمہ: ”کیونکہ اس کے اجزاء پانی میں گھل چکے ہیں، لہذا اس پانی کا پینا مکروہِ تحریمی ہے، جیسا کہ بحر میں مذکور ہے۔“(الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 367، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”پانی کا جانور یعنی وہ جوپانی میں پیدا ہوتا ہے اگر کوئیں میں مر جائے یا مرا ہوا گر جائے تو ناپاک نہ ہو گا۔ اگرچہ پھولا پھٹا ہو مگر پھٹ کر اس کے اجزا پانی میں مل گئے تو اس کا پینا حرام ہے۔“(بہار شریعت، ج 01، ص  338، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم