Khane Mein Lal Baig Keeray Makoray Pak Jayen To Kya Hukum Hai?

 

کھانے میں لال بیگ، کیڑے مکوڑے پک جائیں تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12970

تاریخ اجراء: 08صفر المظفر1445 ھ/26اگست 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حشرات الارض، مثلاً: لال بیگ یا چاول میں رہنے والے کیڑے  اگر کھانے میں پک جائیں، تو کیا اُس کھانے کو استعمال کرسکتے ہیں؟ نیز کیڑے مکوڑے زیادہ ہونے کی بنا پر کافی احتیاط کے باوجود اگر یہ کیڑے مکوڑےکسی آئل، گھی وغیرہ میں گر جائیں، تو کیا ہم ان کیڑوں کو نکال کر اُس آئل یا گھی کو کھانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جن جانوروں میں بہتاخون نہیں ہوتا، وہ جانور اگر پانی میں گر جائیں یا گر کر مرجائیں ،تو اس صورت میں پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں ان کیڑے مکوڑوں کے آئل یا گھی میں گرنے سے وہ آئل یا گھی ناپاک نہیں ہوگا، اُس آئل یا گھی کو  کھانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

   البتہ یہ مسئلہ ضرور ذہن نشین رہے کہ ایسے حشرات الارض اگرچہ  پاک ہیں،لیکن ان کا کھانا حرام ہے، لہٰذا اگر یہ حشرات الارض کسی کھانے میں پک جائیں ،تو اب انہیں کھانے سے الگ کرنا ،ممکن ہو تو الگ کر کے  ہانڈی کھائی جا سکتی ہے ، لیکن اگر کھانے سے الگ کرنا ،ممکن نہ ہو اور اُس کے اجزاء اُس کھانے میں گھل مِل چکے ہوں ،تو  وہ ہانڈی کھانا ، جائز نہیں کہ حشرات الارض کا کھانا حرام ہے۔  ایسے آئل کو کسی بیرونی استعمال میں لے لیا جائے، مثلاً: سر یا بدن پر  لگانا، جائز ہوگا۔

   جن جانوروں میں بہتاخون نہیں ہوتا ، ان کے گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری، بدائع الصنائع وغیرہ میں اس حوالے سے مذکور ہے، والنظم للاول:موت ما ليس له نفس سائلة في الماء لا ينجسه كالبق والذباب والزنابير والعقارب ونحوها یعنی  جس جاندار میں بہتا خون نہ ہو ، اس کے مرنے سے پانی نجس نہیں ہوتا،جیسا کہ کھٹمل، مکھی، بِھڑ  اور بچھو وغیرہ۔(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 24،مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک سُوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” اگر جانور میں دَمِ سائل نہ تھا، جیسے مینڈک، بچھّو، مکھی، بھڑ وغیرہ تو پاک ہے اور اگر دَم سائل تھا تو ناپاک ہے،  کُل پانی نکالیں۔“(فتاویٰ رضویہ،ج03،ص 288، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”جن جانوروں میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا جیسے مچھر، مکھی وغیرہ، ان کے مرنے سے پانی نجس نہ ہوگا۔ مکھی سالن وغیرہ میں گر جائے، تو اسے غوطہ دے کر پھینک دیں اور سالن کو کا م میں لائیں۔ “(بھار شریعت، ج 01، ص  338، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   حشرات الارض اگر چہ پاک ہیں، لیکن ان کا کھانا حرام ہے۔ جیسا کہ الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:”وكل ما ليس له دم سائل حرام إلا الجراد، مثل الذباب والزنابير والعقارب“ترجمہ: ہر وہ جاندار جس میں بہتا خون نہیں، حرام ہے، سوائے ٹِڈی کے جیسے مکھی ، بھڑ ، بچھو ۔(الاختیار لتعلیل المختار ،کتاب الذبائح ، فصل ما یحل الخ ،ج05، ص14،مطبوعہ قاھرہ)

   فتاویٰ شامی میں منقول ہے:”في التتارخانية: دود لحم وقع في مرقة لا ينجس ولا تؤكل المرقة إن تفسخ الدود فيها اهـ أي: لأنه ميتة وإن كان طاهرا. قلت: وبه يعلم حكم الدود في الفواكه والثمار“ ترجمہ:  تتارخانیہ میں ہے کہ گوشت کا کیڑا اگر شوربے   میں گرجائے، تو وہ نجس نہیں ہوگا۔ البتہ اگر وہ کیڑا اس میں پھٹ گیا ہو،تو اس شوربے یا سالن کو نہیں کھا سکتے  ، اس کی وجہ یہ ہے کہ  یہ کیڑا  پاک ہونے کے باوجودمردار ہے (اور مردار کھانا ، جائز نہیں)علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اسی سےخُشک اور تر پھلوں میں پائے جانے والے کیڑے کا بھی حکم معلوم ہوگیا۔(رد المحتار  مع الدر المختار، کتاب الطھارہ، ج 01، ص 620، مطبوعہ کوئٹہ)

   درِ مختار میں ہے:”فلو تفتت فيه نحو ضفدع جاز الوضوء به لا شربه لحرمة لحمه“یعنی اگر مینڈک وغیرہ کے اجزاء (اس کے مرنے اور پھول کر پھٹنے کے سبب )پانی میں گھل مل جائیں،تو اس پانی سے وضو جائز ہے ،لیکن اسے پینا جائز نہیں ،کیونکہ اس کا گوشت کھانا حرام ہے ۔ 

   (لحرمة لحمه) کے تحت  فتاوٰی شامی میں ہے:”لأنه قد صارت أجزاؤه في الماء فيكره الشرب تحريما كما في البحر“ترجمہ: کیونکہ اس کے اجزاء پانی میں گھل چکے ہیں، لہذا اس پانی کا پینا مکروہِ تحریمی ہے، جیسا کہ بحر میں مذکور ہے۔(  الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 367، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”پانی کا جانور یعنی وہ جوپانی میں پیدا ہوتا ہے، اگر کوئیں میں مر جائے یا مرا ہوا گر جائے، تو ناپاک نہ ہو گا۔ اگرچہ پھولا پھٹا ہو،مگر پھٹ کر اس کے اجزا پانی میں مل گئے، تو اس کا پینا حرام ہے۔(بھار شریعت، ج 01، ص  338، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   ایک دوسرے مقام پر صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃارشاد فرماتے ہیں:”حشرات الارض حرام ہیں ،جیسے چوہا، چھپکلی، گرگٹ ،  گھونس، سانپ، بچھو، بر، مچھر، پسو، کٹھمل، مکھی، کلی، مینڈک وغیرہا۔“(بھار شریعت، ج 03، ص  324، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم