Kachua Mili Hui Dawa Khane Ka Hukum

کیچوا(Earthworm ) ملی ہوئی دوا کھانے کا حکم

مجیب:  مفتی  محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: SAR-7938

تاریخ اجراء: 19ذو الحجۃ الحرام1443ھ/19 جولائی 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ شوگر یا دیگر کچھ امراض کے لیےدواؤں میں خشک خراطین(کیچوا/Earthworm)کوپیس کر یوں ملایا جاتا ہے کہ وہ دوا کے اَجزاء میں مکمل طور پر مکس ہو جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ  خشک خراطین پر مشتمل دوائی کو کھانا،جائزہے یانہیں،جبکہ جن اَمراض میں یہ استعمال کیاجاتاہے، اِس  کے علاوہ بھی علاج موجودہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جس دوا میں خراطین کو پِیس کر شامل کیا گیا، اُس دوا کو استعمال کرنا حلال نہیں، کیونکہ ”خراطین“ حشرات الارض میں سے ہےاور تمام ”حشرات الارض “ حرام  ہیں ،  لہذا جب اِسے پِیس کر دوا میں شامل کر دیا گیا، تو اُس دوا کا کھانا بھی حرام ٹھہرا۔

    علامہ ابو الْمَعَالی  بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتےہیں:’’يجب أن يعلم بأن الحيوانات على أنواع: منها ما لا دم له نحو ‌الذباب والزنبور والسمك والجراد وغير ذلك، ولا يحل تناول شيء منها إلا السمك والجراد‘‘ ترجمہ:لازم ہے کہ جان لیا جائے کہ حیوانات کی چند اقسام ہیں۔ پہلی یہ کہ جن میں  خون نہیں ہوتا، مثلاً: مکھی، بِھڑ، مچھلی اور ٹڈی وغیرہا۔ اِن میں سے مچھلی اور ٹڈی کے علاوہ کسی کا بھی کھانا حلال نہیں۔     (المحیط البرھانی، جلد6، کتاب الصید، صفحہ57، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

    علامہ اَحمد طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1231ھ/1815ء) لکھتے ہیں:’’ كذا جميع ما لا دم له، فأكله مكروه لأنه كله مستخبث فيدخل تحت قوله عز وجل﴿ وَیُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الْخَبٰٓئِثَ إلا الجراد فإنه مخصوص بالحديث‘‘ ترجمہ:اوراسی طرح تمام وہ جانورجن میں خون نہیں ہوتا،اُن کوکھانا بھی حلال نہیں، کیونکہ یہ سب خبیث ہیں، چنانچہ یہ اللہ تعالی کے فرمان﴿ وَیُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الْخَبٰٓئِثَ﴾کے تحت داخل ہیں،  مگر ٹڈی کہ وہ  نصِ حدیث کی بنیاد پر مستثنیٰ ہے ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد10، صفحہ 602، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

    امامِ اہلسنت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے سوال ہوا کہ’’ خراطین یا کسی مکروہِ تحریمی شے  کا جلا کر کھانا یا جس چیز میں جلائی ہے، اُس کا کھانا کیسا ہے؟ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جواب دیا:’’حرام شے  جلنے کے بعد بھی حرام ہی رہے گی اور دوسری شے میں اگر ایسی مخلوط ہوگی کہ تمیز ناممکن ہے، تو اُسے بھی حرام کردے گی:’’اذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام‘‘ حلال اور حرام مجتمع ہوں تو حرام کو غلبہ ہوتاہے۔‘‘     (فتاویٰ رضویہ، جلد20،صفحہ262،263،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    خراطین کے  تعارف کے متعلق ” معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ “ میں ہے:’’دود الأرض، ديدان طِوال تكون في طين الأنهار، يستعملها الناسُ طُعْمًا لصيد الأسماك‘‘ ترجمہ:زمینی کیڑا ہے۔عموماً نہروں کی مٹی میں پایا جاتا ہے اور لمبا ہوتا ہے۔لوگ اِسے مچھلیوں کے شکار کے لیے ، مچھلیوں کا  کھانابنا کر استعمال کرتےہیں۔(معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ، جلد1، صفحہ 632، مطبوعہ  دار عالَم الکتب)

ایک سوال:

    جن کیڑوں میں خون نہ ہو، وہ طبعاً مرنے کے باوجود  بھی پاک رہتے ہیں، لہذا جب وہ پاک ہیں ،تو خود اُن کا کھانا  یا کسی چیز میں شامل کر کے کھانا حلال کیوں نہیں؟

اِس کے جواب سے پہلے دو ضابطے جان لیجیے:

     (1) طہارت اور حِلَّت، دو جدا چیزیں ہیں، لہذا اصول جان لیجیے کہ خباثت اور حلت ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی، البتہ خباثت وطہارت  اکٹھی ہو سکتی ہیں، چنانچہ حشرات الارض پاک ہیں، مگر  علت ِ خبث کی بنیاد پراُن کا کھانا  حرام ہے ، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’أن هذه الدودة إن لم يكن لها نفس سائلة تكون ميتتها طاهرة كالذباب والبعوض وإن لم يجز أكلها‘‘ ترجمہ:یہ کیڑا کہ اگرچہ اِس میں  بہنے والا خون نہیں،  اِس کا مردار بھی پاک ہے،مثلاً: مکھی اور بھڑ وغیرہا، اگرچہ اِن کا کھانا حلال نہیں۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد7، صفحہ235، مطبوعہ  کوئٹہ)

     (2)طہارت کے لیے حِلَّت  لازم نہیں کہ جو شے بھی پاک ہو، وہ لازمی طور پر حلال بھی ہو،جیسا کہ  تمام بحری حیوانات پاک ہیں، مگر  مچھلی کے سوا حلال نہیں ہیں۔  یونہی خباثت کے لیے نجاست بھی لازم نہیں، کہ جو چیز بھی خبیث ہو، وہ نجس بھی ضرور ہو، جیسا کہ کیڑے مکوڑوں میں خبث موجود  ہے، مگر ناپاک اور نجس نہیں ہیں۔

مذکورہ ضابطوں  سے یہ بات واضح ہو گئی کہ خراطین اگرچہ مرنے کے بعد بھی پاک ہی رہتے ہیں، لیکن اِن کا کھانا حلال نہیں ہوتا، کیونکہ پاک ہونا ایک جدا چیز ہے اور کھانے کے لیے حلال ہونا، بالکل الگ چیز ہے۔

تتبع کلماتِ فقہاء کے بعد ذیل میں  اُن اشیاء کو ذکر کیا جا رہا ہے جو پاک تو ہیں، مگر حلال نہیں:

     (1)مہلک زہر، کہ پاک ہے، مگر کھانا حلال نہیں، چنانچہ علامہ شامی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےلکھا:’’السم القاتل فإنه حرام مع أنه طاهر‘‘ ترجمہ: مہلک زہر، کہ وہ حرام ہونے کے باوجود پاک ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد10، کتاب الاشربۃ، صفحہ44، مطبوعہ  کوئٹہ)

     (2)بحری حیوانات پاک ہیں، مگر مچھلی کے سوا حلال نہیں، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ أما الذی ‌يعيش ‌في ‌البحر فجميع ما في البحر من الحيوان يحرم أكله إلا السمك خاصة فإنه يحل أكله‘‘ ترجمہ:جو حیوانات سمندری ہیں، وہ سب حرام ہیں،سوائے مچھلی کے ، یعنی  مچھلی اُن میں سے حلال ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد5، كتاب الذبائح ، صفحہ289،مطبوعہ کوئٹہ)

     (3) جن میں دمِ سائل نہ ہو، وہ پاک ہیں، مگر حلال نہیں، چنانچہ مہذِّب مذہبِ مہذَّب، امام محمد بن حسن شیبانی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:189ھ/804ء) لکھتے ہیں:’’أرأيت إن وقع في إنائه ذباب أو زنبور أو عقرب أو خنفساء أو جراد أو نمل أو ‌صراصر  فمات فيه أو وجد ذلك في الحب ميتا هل يفسد ذلك الماء ؟ قال: لا. قلت: لم؟ قال: لأنه ليس له دم، فلا بأس بالوضوء منه. قلت: وكذلك كل شيء ليس له دم؟ قال: نعم‘‘ ترجمہ:آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر برتن میں مکھی، بِھڑ، بچھو، بھنورا، ٹڈی ، چیونٹی یا کھٹمل گر جائے اور اُسی میں مر جائےیا اِن میں سے کوئی چیز ”حب“(برتن کی ایک قسم) میں مری ہوئی پائی جائے، تو کیا وہ پانی کو ناپاک کر دے گی؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا: کیوں؟ فرمایا:کیونکہ اُس میں خون نہیں، لہذا اُس پانی سے وضو کرنےمیں بھی کوئی حرج نہیں۔ میں نے پوچھا: کیا ہر غیر دَمْوِی کا یہی حکم ہے؟ فرمایا: جی ہاں۔                             (کتاب الاصل، جلد1، صفحہ28، مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ، کراچی)

     (4)غیر ماکول اللحم کو جب ذبح شرعی کیا جائے، تو دمِ مسفوح کے علاوہ اُس کے تمام اعضاء پاک ہو جاتے ہیں، البتہ  خنزیر ذبح کے بعد بھی ناپاک ہی رہتا ہے۔ علامہ مَجْدالدین موصلی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:683ھ/1284ء) لکھتےہیں:’’ إذا ذبح ما لا يؤكل لحمه طهر جلده ولحمه إلا الخنزير والآدمي فإن الذكاة لا تعمل فيهما ، لأن الذكاة تزيل الرطوبات وتخرج الدماء السائلة، وهي ‌المنجسة لا ذات اللحم والجلد فيطهر كما في الدباغ‘‘ ترجمہ:جب غیر ماکول اللحم کو ذبح کیا جائے ،تو اُس کی جلد اور گوشت دونوں پاک ہو جاتے ہیں، سوائے خنزیر اور آدمی  کے، کیونکہ اِن میں ذبح کرنا بصورتِ طہارت مؤثر نہیں۔(غیر ماکول اللحم) کے پاک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ذبح شرعی رطوبتوں کو زائل کر دیتا اور بہنے والے خون کو خارج کر دیتا ہے اور یہی نجس  ہوتا ہے، گوشت اور جلد نجس نہیں ہوتی، لہذا وہ پاک ہو جاتا ہے، جیسا کہ دباغت کا مسئلہ ہے۔              (الاختیار  لتعلیل المختار، جلد5، صفحہ15، مطبوعہ  دار المعرفۃ، بیروت)

     (5)مردار کے بال اور خشک ہڈیاں پاک ہیں، حلال نہیں۔ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:’’ أما ‌عظم ‌الميتة وعصبها۔۔۔فيجوز بيعها، والانتفاع بها۔۔۔بناء على أن هذه الأشياء طاهرة  عندنا‘‘ ترجمہ:مردار کی (خشک) ہڈی، پٹھے وغیرہا کی خریدوفروخت جائز ہے اور اُن سے نفع اٹھانا بھی جائز ہے۔وجہ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں ہم احناف کے نزدیک پاک ہیں۔(بدا ئع الصنائع، جلد6،کتاب البيوع، صفحہ557،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

     (6)حلال پرندوں کی بیٹ پاک ہے، مگر کھانا،جائز  نہیں،چنانچہ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:’’ما يؤكل لحمه ‌كالحمام والعصفور ونحوها وخرؤها طاهر عندنا‘‘ ترجمہ:وہ پرندے کہ جن کا گوشت کھایا جاتا ہے، جیسا کہ کبوتر، چڑیا یا اِن کے علاوہ دیگر حلال پرندے، اُن کی بیٹ ہمارے نزدیک پاک ہے۔(بدا ئع الصنائع، جلد1،کتاب الطھارۃ، صفحہ366،مطبوعہ کوئٹہ)

     (7)کسی انسان کو آنے والی قلیل قے یا جلد سے معمولی سا خون چمکا،تو وہ نجس نہیں،چنانچہ فتاویٰ  عالمگیری میں ہے:’’ ما ‌يخرج ‌ من     ‌بدن

الإنسان إذا لم يكن حدثا لا يكون نجسا كالقيء القليل والدم إذا لم يسل‘‘ ترجمہ:جو انسان کے بدن سے نکلے، اگر وہ ناقِض نہیں، تو وہ نجس بھی نہیں، جیسا کہ تھوڑی قے اور وہ خون کہ جو سائل(بہنے والا) نہ ہو، صرف اپنے موضع پر چمکے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد1، كتاب الطھارۃ ، صفحہ10،مطبوعہ کوئٹہ)

     (8)جامِد شے بقدرِ نشہ،علامہ شامی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےلکھا:’’ أما الجامدات فلا يحرم منها الا الكثير المسكر، ولا يلزم من حرمته نجاسته ‌كالسم ‌القاتل فإنه حرام مع أنه طاهر‘‘ ترجمہ:جامِد نشہ آور چیزوں کی کثیر مقدار ہی حرام ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ اِس کے حرام ہونے سے اِس کا نجس ہونا لازم نہیں آتا، جیسا کہ مہلک زہر، کہ وہ حرام ہونے کے باوجود پاک ضرور ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد10، کتاب الاشربۃ، صفحہ44، مطبوعہ  کوئٹہ)

     (9)نباتات بقدرِ نشہ، کہ یہ حرام ضرور ہیں، مگر ناپاک نہیں، چنانچہ علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ہی لکھا:’’ لم نر أحدا قال بنجاستها ولا بنجاسة نحو الزعفران مع أن كثيره مسكر‘‘ ترجمہ:ہم نے کسی ایک کو بھی اِس (بھنگ، افیون)  کے نجس ہونے کا قائل نہیں دیکھا اور نہ ہی زعفران کی نجاست کا قائل دیکھا، حالانکہ اِس کی کثیر نشہ آور مقدار کا استعمال حرام ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد10، کتاب الاشربۃ، صفحہ43، مطبوعہ  کوئٹہ)

     (10)زندہ جانور سے الگ کیا ہوا ایسا عضو کہ جس میں خون  نہ ہو،جیسے بال، ناخن، وہ پاک ہے، مگر حلال نہیں، چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:’’ إن كان المبان جزءا فيه دم كاليد والأذن والأنف ونحوها، فهو نجس بالإجماع، وإن ‌لم ‌يكن ‌فيه ‌دم كالشعر والصوف والظفر، فهو طاهر عندنا‘‘ ترجمہ:زندہ سے جدا کردہ جز میں اگر خون ہو، مثلاً: ہاتھ، کان، ناک وغیرہا، تو وہ جدا کردہ عضو بالاجماع نجس ہے اور اگر اُس میں خون نہ ہو، مثلاً: بال، اون اور ناخن، تو وہ ہمارے نزدیک پاک ہے۔ (بحر الرائق، جلد1،صفحہ113،مطبوعہ دارالکتاب السلامی)

    تلک عشرۃ کاملۃ:اِن دس پوائنٹس میں موجود اشیاء کے علاوہ دیگر بھی بہت ساری چیزیں عباراتِ فقہاء میں موجود ہیں کہ جو پاک ہیں، مگر حلال نہیں، بطورِ دلیل ونظیر،  یہ دس نکات کافی ہیں۔

    الغرض!مذکورہ بالا کلام وجزئیات سے واضح ہوا کہ  کسی چیز کا پاک ہونا، حلال ہونے کو مستلزم نہیں،  لہذا اِسی طرح خراطین بھی پاک ضرور ہے، کہ اُس میں خون نہیں، مگر اُس کا کھانا حلال نہیں، لہذا اُسے دوا میں شامل کر کے اُس دوا کو کھانا بھی ناجائز  ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم