مجیب: عبدالرب شاکرعطاری مدنی
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-7298
تاریخ اجراء: 12شوال المکرم1442 ھ24مئی2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت
اورمرد کاکان،ناک میں سوراخ نکلوانا شرعا جائز ہے یا نہیں؟اور
آج کل خصوصاً مغربی ممالک میں بطورِ فیشن لڑکے اورلڑکیاں
زبان،ہونٹ ،چھاتی ، ابرووغیرہ اعضاء میں سوراخ نکلوا کر بالیاں
پہنتے ہیں،تو کیا ان کا یہ عمل شریعت کی نظرمیں
درست ہے یا نہیں؟اوروضو و فرض غسل کی صورت میں ان سوراخوں
میں پانی پہنچانا ضروری
ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عورت
کا ناک اور کان میں سوراخ نکلوانااور اس میں بالی
پہنناشرعا جائزہے،اس میں کوئی
حرج نہیں ،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں عورتیں کان
چھدواتی (یعنی سوراخ نکلواتی)تھیں،لیکن
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
انہیں کبھی منع نہ فرمایااوربہت سے علاقوں بلکہ ملکوں میں
عورتیں کان کے ساتھ زینت کے لیے ناک بھی چھدواتی
ہیں اوراسلام نے عورتوں کو شرعی حدود و قیود میں رہتے
ہوئےزینت اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔
علمائے امت نے اسے جائزقراردیاہے،جبکہ مردکاکان اورناک
میں سوراخ نکلوانا اور اس میں بالی پہننادونوں عمل شرعا ناجائز
وگنا ہ ہیں ،کیونکہ مَردوں کے ناک اورکان چھدوانے (سوراخ
نکلوانے)میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے
والے مَردوں پر لعنت بھیجی ہے۔
اورعورت
کاناک اورکان کے علاوہ اورمردکامطلقاجسم کے کسی بھی حصے
مثلاًابرو،ہونٹ،زبان وغیرہ پرزیورپہننے کے لیے سوراخ نکلوانا
شرعاناجائز،حرام وگناہ ہے، کیونکہ یہ بلااجازتِ شرعی اللہ عزوجل
کی تخلیق کوتبدیل کرناہے اوراللہ عزوجل کی تخلیق
کوتبدیل کرنا، ناجائز ، حرام، اغوائے شیطان وموجبِ لعنت ہے ۔
نیزیہ
کہ ہونٹ،زبان،ابرو،ناف وغیرہ میں سوراخ نکلواکر بالیاں ڈالنا زیادہ تر مغربی ممالک
میں کفار وفساق مردوں اورعورتوں کا طریقہ ہے،عزت دارمسلمانوں
میں ہر گز رائج نہیں ہےاوراسلام نے کفار وفساق کے ساتھ مشابہت
اختیار کرنےسے منع فرمایا ہے،لہذامسلمان مردوعورت کو
ہونٹ،زبان،ابرو،ناف وغیرہ میں سوراخ نکالنااوران میں بالی
ڈالنامکروہ وممنوع ہے۔
وضو و
غسل کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگرکسی نے سوراخ نکال ہی
لیا ہے، تواب وضواورغسلِ فرض میں جن اعضاء کودھونافرض ہے، ان
میں نکالے گئے سوراخوں میں پانی بہانابھی فرض
ہے،اگراوپرسے پانی بہانے میں خودبخود سوراخوں کے اندرتک پہنچ جائے توکافی ہے، ورنہ انگلی سے
حرکت دے کرپانی پہچاناضروری ہے اوراگرسوراخ بند ہوجائیں، تومعاف ہے یعنی ان میں پانی
بہانافرض نہیں۔
عورتوں
کے کان چھیدوانےکے ثبوت کے بارے میں صحیح بخاری میں ہے:”عن ابن عباس،
رضي اللہ عنهما أن النبي صلى اللہ عليه وسلم صلی يوم العيد ركعتين، لم يصل قبلها ولا بعدها، ثم
أتى النساء ومعه بلال، فأمرهن بالصدقة، فجعلت المرأة تلقي قرطها“ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم نے عید کے روز دو رکعتیں پڑھیں،اس سے پہلے
یا بعد کبھی نہیں پڑھی، پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عورتوں کے
پاس تشریف لائےاور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے
ساتھ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، آپ نے ان عورتوں کو
صدقہ کرنے کاحکم دیا،تو عورت اپنے کان سے بالیاں نکال کر (حضرت بلال
کے کپڑے )میں ڈالتی تھی(صحيح
البخاري،کتاب اللباس،باب القرط للنساء،ج07،ص158،مطبوعہ دارطوق النجاۃ)
مذکورہ
بالا حدیث کے تحت فتح الباری میں ہے:” واستدل به على
جواز ثقب أذن المرأة لتجعل فيها القرط وغيره مما يجوز لهن التزين به“ترجمہ:اوراس روایت سے عورت کے کان میں سوراخ نکالنے کے
جواز پر استدلال کیا گیا ہےتاکہ وہ ان میں بالیاں اور اس
کے علاوہ وہ چیزیں ڈال سکے جو ان کے لیے بطورِ زینت جائز
ہے۔ (فتح الباري لابن حجر،ج10،ص221، مطبوعہ دارالمعرفہ ،بیروت)
فتاوی
خانیہ میں ہے:” و لا بأس بثقب أذن الطفل لأنهم كانوا
يفعلون ذلك في الجاهلية و لم ينكر عليهم
رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم“ترجمہ:بچی کے
کان میں سوراخ نکالنے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ
لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ عمل کرتے تھے اورنبی کریم
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع نہ فرمایا۔(فتاوی
قاضی خان،ج03،ص251،مطبوعہ بیروت)
بحرالرائق
اورتبیین الحقائق میں ہے:” وكذا يجوز ثقب
أذن البنات الأطفال لأن فيه منفعة الزينة، و كان
يفعل ذلك في زمنه عليه الصلاة والسلام إلى
يومنا هذا من غير نكير “ترجمہ:اورایسے
ہی چھوٹی بچیوں کے کانوں میں سوراخ نکالنا جائز
ہے،کیونکہ اس میں زینت کا فائدہ حاصل ہوتاہے اوریہ عمل
نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے سے لے
کر آج تک بغیر کسی انکارکے جاری وساری ہے۔(البحرالرائق،ج08،ص554،مطبوعہ
دارالکتاب الاسلامی)(تبیین الحقائق،ج06،ص227،مطبوعہ بیروت
)
الاختیارلتعلیل
المختارمیں ہے:’’ولابأس بثقب اذن البنات الاطفال
لانہ ایلام لمنفعۃ الزینۃ وایصال الالم الی
الحیوان لمصلحۃ تعودالیہ جائزکالختان‘‘ترجمہ:بچیوں
کے کانوں میں سوراخ کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ
یہ زینت کی منفعت کے لیے تکلیف دینا ہے
اورجاندارکوکسی ایسی مصلحت کی وجہ سے تکلیف
دیناکہ جومصلحت اس کی طرف لوٹتی ہو،جائزہے، جیسے ختنہ
کرانا۔(الاختیارلتعلیل المختار،کتاب الکراھیۃ
،ج04،ص167، دارالکتب العلمیہ،بیروت)
ناک
میں سوراخ نکالنے کے جواز کے بارے میں ردالمحتار میں ہے:” لا بأس بثقب أذن الطفل من البنات
وزاد في الحاوي القدسي: ولا يجوز ثقب آذان البنين …….
قلت: إن كان مما يتزين النساء به كما هو في بعض البلاد فهو فيها كثقب القرط وقد نص
الشافعية على جوازه“ترجمہ:بچیوں کے کان میں سوراخ
کرنے میں حرج نہیں اورحاوی قدسی میں یہ زیادہ کیاکہ لڑکوں کے کانوں
میں سوراخ نکالناجائز نہیں۔ میں (علامہ شامی علیہ الرحمۃ)
کہتاہوں:اگر ناک میں سوراخ نکالنا عورتیں بطورِ زینت کرتی
ہیں جیساکہ بعض شہروں میں رائج ہے،تو وہ کان میں سوراخ
نکالنے کی طرح جائز ہے اوراس کے جائز ہونے پر شوافع نے صراحت بیان
فرمائی ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج06،ص420،مطبوعہ
دارالفکر،بیروت)
بہارشریعت
میں ہے:”لڑکیوں کے کان ناک چھیدنا ، جائزہے اوربعض لوگ لڑکوں کے
بھی کان چھدواتے ہیں اوردُریا(بالی)پہناتے
ہیں،یہ ناجائزہے یعنی کان چھدوانا بھی ناجائز
اوراسے زیور پہنانا بھی ناجائز۔“ (بھارشریعت، ج03، ص596،
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
مردوں
کاعورتوں سے مشابہت اختیارکرنے کے حرام ہونے کے بارے میں صحیح بخاری،جامع ترمذی،سنن ابی داؤد،سننِ
ابن ماجہ اورمسنداحمدمیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ
تعالیٰ عنہما سے مردی ہے:’’ قال
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم :لعن اللہ
المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال ‘‘ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ کی لعنت ان مردوں پر جو
عورتوں سے مشابہت کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت کریں
۔(صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب المتشبھون بالنساء ،
والمتشبھات بالرجال، ج7،ص159 ، دار طوق النجاۃ ،مصر)
حدیقہ
ندیہ میں ہے :’’ الحکمۃ
فی تحریم تشبہ الرجل بالمرأۃ وتشبہ المرأۃ بالرجل انھما
مغیرات لخلق ﷲ“ترجمہ :
مردو عورت کا باہم تشبہ حرام ہونے کی حکمت یہ ہے کہ وہ دونوں اس
میں خدا کی بنائی چیز بدلتے ہیں۔(الحدیقۃ الندیہ،ج02،ص558،مطبوعہ مکتبہ
نوریہ رضویہ)
اللہ
تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزکوبدلنے کی
ممانعت کے بارے میں قرآن میں ہے﴿وَّلَاُضِلَّنَّہُمْ
وَلَاُمَنِّیَنَّہُمْ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ
اٰذَانَ الۡاَنْعامِ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ
فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ﴾ترجمہ
کنزالایمان:’’(شیطان بولا)قسم ہے میں ضرور بہکادوں گا اور ضرور
انہیں آرزوئیں دلاؤں گااور ضرور انہیں کہوں گا کہ وہ
چوپایوں کے کان چیریں اور ضرور انہیں کہوں گا کہ وہ اللہ
کی پیدا کی ہوئی چیزیں بدل دیں ۔(پارہ
5 ، سورۃ النساء ،آیت119)
مذکورہ بالاآیت کے تحت شیخ القرآن مفتی محمد قاسم
عطاری سلمہ الباری لکھتے ہیں:”شیطان نے ایک بات
یہ کہی کہ وہ لوگوں کو حکم دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ
کی پیدا کی ہوئی چیزیں ضرور بدلیں
گے۔ یاد رہے کہ اللہ عزوجل کی پیدا کی ہوئی
چیزوں میں خلافِ شرع تبدیلیاں حرام ہیں۔“(تفسیرصراط
الجنان،ج02،ص312،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
کتبِ
صحاح یعنی بخاری،مسلم،ترمذی،سنن ابی
داؤد،سنن نسائی اورسنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن
مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: واللفظ للبخاری’’لعن
اللہ الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللہ‘‘ترجمہ:اللہ نے لعنت کی بدن گود نے والیوں اور گودوانے
والیوں اور منہ کے بال نوچنے والیوں اور خوبصورتی کے لیے
دانتوں میں کھڑکیاں بنانے والیوں پر(کیونکہ یہ
سب)اللہ کی بنائی ہوئی چیز بگاڑنے والیاں
ہیں۔(صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب المتفلجات للحسن،ج02،ص878،مطبوعہ
،کراچی)
مذکورہ
بالا حدیث میں بدن گودنے وگودوانے والیوں پر لعنت کاذکر ہوا،بدن
گودنا یہ ہے کہ جسم کے مختلف اعضاء میں سوئی وغیرہ کے
ذریعے سوراخ کیےجائیں،پھرجب خون نکلناشروع ہوجائے،توان
میں سرمہ یانیل وغیرہ ڈال دیاجائے،مذکورہ
بالاحدیث میں اللہ عزوجل نے بدن گودنے اورگودوانے والی عورتوں
پرلعنت فرمائی، کیونکہ یہ اللہ کی بنائی ہوئی
چیزمیں تغیرکرناہے اورمردیاعورت کاابرو،ہونٹ اورزبان
میں سوراخ کرکے ان میں زیورڈالنابھی اس لعنت کی
وعیدمیں داخل ہے، کیونکہ یہ بھی اللہ عزوجل
کی بنائی ہوئی چیزمیں تغیر کرنا ہے ، جیساکہ
علامہ بدرالدین عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی
لکھتے ہیں: ’’ھو غرز إبرۃ أو مسلۃ ونحوھما
فی ظھر الکف أو المعصم أو الشفۃ وغیر ذلک من بدن
المرأۃ حتی یسیل منہ الدم ثم یحشی ذلک
الموضع بکحل أو نورۃ أو نیلۃ.....لقدلعن الشارع
من صنعت ذلک من النساء لأن فیہ تغییرالخلقۃ
الأصلیۃ‘‘ترجمہ: وشم یہ ہے کہ
سوئی یاسُوا وغیرہ کے ذریعے ہاتھوں کی پشت،
کلائی، ہونٹ یا اس کے علاوہ عورت کے جسم میں سوراخ
کیےجائیں، پھر جب خون بہنا شروع ہو، تو اس جگہ سرمہ ، نورہ یا
نیل بھر دیا جائے، عورتوں میں سے جس نے یہ کیاشارع
نے اس پرلعنت کی، کیونکہ اس میں خلقت اصلیہ کوبدلنا
ہے۔(عمدۃ القاری،کتاب اللباس، باب المتفلجات للحسن،ج22،
ص97،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
علامہ
ملاعلی قاری علیہ رحمۃ اللہ الوالی لکھتے
ہیں:’’(المغیرات)صفۃ للمذکورات جمیعا و مفعولہ (خلق اللہ)
والجملۃ کالتعلیل لوجوب اللعن‘‘ترجمہ:(اللہ
کی تخلیق کوبدلنے والیاں ہیں)یہ پیچھے سب
ذکرکی جانے والیوں کی صفت ہے اوراس کامفعول (خلق اللہ)ہے
اورجملہ لعنت کے واجب ہونے کی علت بیان کرنے کی طرح ہے۔ (مرقاۃ
المفاتیح،کتاب اللباس،باب الترجل،ج08،ص281،مطبوعہ کوئٹہ)
کسی
قوم سے مشابہت اختیار کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:”من تشبہ بقوم فھو منھم“ترجمہ:جو
شخص جس قوم سے مشابہت کرے ،تووہ انہی میں سے ہے۔(سنن
ابی داؤد،کتاب اللباس،ج 02، ص203،مطبوعہ لاھور)
کفار
یا فساق وفجار سے مشابہت کے ممنوع ہونے کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:”یہ لحاظ رکھنا چاہئے
کہ عورتوں یا بدوضع آوارہ فاسقوں کی مشابہت نہ پیدا ہو، مثلا
مرد کو چولی دامن میں گوٹا پٹھا ٹانکنا مکروہ ہوگا، اگر چہ
چارانگلی سے زیادہ نہ ہو کہ وضع خاص فساق بلکہ زنانوں کی
ہے۔ علماء فرماتے ہیں اگر کوئی شخص فاسقانہ وضع کے کپڑے
یا جوتے سلوائے (جیسے ہمارے زمانے میں نیچری
وردی) تودرزی اور موچی
کو ان کا سینا مکروہ ہے کہ یہ معصیت پر اعانت ہے ،اس سے ثابت
ہوا کہ فاسقانہ تراش کے کپڑے یا جوتے پہننا گناہ ہے۔“(فتاوی
رضویہ،ج22،ص137،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اسی میں ہے:”دربارۂ لباس اصل کلی یہ
ہے کہ جو لباس جس جگہ کفار یا مبتدعین یا فساق کی وضع ہے
اپنے اختصاص و شعاریت کے مقدا رپر مکروہ یاحرام یا بعض صور
میں کفر تک ہے۔ حدیقہ ندیہ میں ہے :’’لبس
زی الافرنج کفر علی الصحیح‘‘افرنگیوں
کا لباس صحیح قول کی بنا پر کفر ہے۔“(فتاوی
رضویہ ،جلد22،صفحہ184،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہارشریعت میں ہے:” یہ حدیث ایک اصل کلی ہے۔
لباس و عادات و اطوار میں کن لوگوں سے مشابہت کرنی چاہیے اور کن
سے نہیں کرنی چاہیے۔ کفار و فساق و فجار سے مشابہت
بُری ہے اور اہل صلاح و تقویٰ کی مشابہت اچھی ہے،
پھر اس تشبہ کے بھی درجات ہیں اور انہیں کے اعتبار سے احکام
بھی مختلف ہیں۔ کفار و فساق سے تشبہ کا ادنیٰ مرتبہ
کراہت ہے، مسلمان اپنے کو ان لوگوں سے ممتاز رکھے کہ پہچانا جاسکے اور
غیرمسلم کا شبہ اس پر نہ ہوسکے۔ (بھارشریعت ،ج03،ص407 ،مطبوعہ
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
سوراخ
میں پانی بہانے کے بارے میں محیط
برہانی میں ہے:” وسئل نجم الدين
النسفي رحمه اللہ عن امرأة تغتسل من الجنابة هل تتكلف لإيصال الماء إلى ثقب القرط،
قال: إن كان القرط فيه وتعلم أنه لا يصل الماء إليه من غير تحريك فلا بد من
التحريك كما في الخاتم۔۔۔۔۔ إن انضم ذلك بعد نزع
القرط وصار بحيث لا يدخل القرط فيه إلا بتكلف لا تتكلف أيضاً “ترجمہ:امام نجم الدین نسفی رحمہ اللہ
تعالیٰ سے غسلِ جنابت کرنے والی عورت کے متعلق سوال ہوا کہ
کیا اُس عورت پر بالی کے سوراخ میں پانی پہنچانالازم
ہے؟تو آپ علیہ الرحمۃنے جواب دیا:اگرسوراخ میں بالی
موجود ہواور وہ جانتی ہوکہ بغیر حرکت دیئے سوراخ تک پانی
نہیں پہنچے گا،تو پانی پہنچانے کے لیے حرکت دینا لازم
ہے،جیسے (تنگ)انگوٹھی کے نیچے پانی پہنچانے کے لیے
حرکت دی جاتی ہے ،اگربالی اتارنے کے بعد سوراخ اس طرح مل جائے
کہ بالی اس میں داخل نہ ہو
سکتی ہو ،مگر مشقت کے ساتھ(ہو سکتی ہو)تو عورت پر سوراخ میں
پانی پہنچانا لازم نہیں۔ (محیط
برھانی،کتاب الطھارۃ،ج01،ص80،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)
شرح
الوقایہ اوربحرالرائق میں ہے:واللفظ للآخر”ويجب تحريك القرط والخاتم الضيقين، ولو لم يكن قرط فدخل الماء الثقب
عند مروره أجزأه كالسرة، وإلا أدخله كذا في فتح القدير ولا يتكلف في إدخال شيء سوى
الماء من خشب“ترجمہ:بالی اورانگوٹھی تنگ ہو تو انہیں حرکت
دینا واجب ہے اور بالی نہ ہو اورپانی خود ہی سوراخ تک
پہنچ جائے تو کافی ہے،جیسے ناف میں پانی خود پہنچ جائے تو
حرکت دینالازم نہیں ہے، ورنہ پانی داخل کرے،ایسے ہی
فتح القدیرمیں ہے اورلکڑی وغیرہ کے ذریعے سوراخ
میں پانی داخل کرنےکاپابند نہیں ہے۔(بحرالرائق،کتاب
الطھارۃ،ج01،ص49،مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی)
درمختار
میں ہے:’’لوخاتمہ ضیقانزعہ اوحرکہ وجوباکقرط ولولم
یکن بثقب اذنہ قرط فدخل الماء فی الثقب عندمرورہ علی اذنہ
اجزأہ کسرۃ واذن دخلھماالماء والایدخل ادخلہ ولوباصبعہ ولا
یتکلف بخشب ونحوہ والمعتبر غلبۃ ظنہ بالوصول ‘‘ترجمہ:اگراس
کی انگوٹھی تنگ ہوتو اتاردے یااسے لازمی طورپر حرکت دے کر
پانی پہنچائے، جیسے بالی کا حکم ہے اور اگر اس کے کان کے سوراخ
میں بالی نہ ہو،تو پانی کان سےگزرتے وقت سوراخ میں داخل ہوجائے تو کافی
ہے، جیسے ناف او ر کان میں پانی چلا جائے ،تو کافی ہے اور
اگر پانی نہ جائے تو پہنچائے ،اگر چہ انگلی کے ذریعہ اوروہ
لکڑی وغیرہ کے ذریعے تکلف میں نہ پڑے اوراعتبارپانی
پہنچنے کاغالب گمان ہوجانے کا ہے ۔(درمختار مع
ردالمحتار، کتاب الطھارۃ ،ج01،ص317،مطبوعہ کوئٹہ)
اسی
میں ہے: ’’لا یجب غسل مافیہ حرج کعین وثقب
انضم‘‘ترجمہ:جس عضو کودھونے میں حرج ہو، اسے دھوناواجب نہیں
جیسے آنکھ اور وہ سواراخ جو بند ہو چکا ہو۔(درمختار مع
ردالمحتار، کتاب الطھارۃ،ج01،ص314،مطبوعہ کوئٹہ)
بہارشریعت
میں ہے:’’نَتھ کا سوراخ اگر بند نہ ہو، تو اس میں پانی بہانا
فرض ہے، اگر تنگ ہو ،تو پانی ڈالنے میں نتھ کو حرکت دے ،ورنہ
ضروری نہیں۔‘‘(بھارشریعت،ج01،ص289،مکتبۃ
المدینہ ،کراچی)
اسی
میں ہے:’’ کانوں میں بالی وغیرہ زیوروں کے سوراخ کا
وہی حکم ہے جو ناک میں نَتھ کے سوراخ کا حکم وُضو میں
بیان ہوا۔‘‘(بھارشریعت،ج01،ص317، مکتبۃ
المدینہ ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟