Jumma Mubarak Kehna Kaisa?

جمعہ مبارک کہنا کیسا ؟

مجیب:مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7367

تاریخ اجراء:07جُمادَی الاُخرٰی1445ھ/21دسمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ عام طور پر مسلمانوں میں رائج ہے کہ جمعہ کے دن ملاقات کے وقت یا واٹس ایپ وغیرہ پر ایک دوسرے کو جمعہ مبارک کہتے ہیں، جس پر  بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ، یہ عمل بدعت  ہے ، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔عرض ہے  کہ کیا جمعہ کی مبارکباد دینا شرعاً جائز ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جمعہ کے دن ایک دوسرے کو مبارکباد دیناشرعی طور پر  بالکل جائز ، بلکہ ایک اچھاعمل ہے ۔ اس حکم  کی تفصیل درج ذیل ہے:

   (1) جمعہ عام دنوں کی طرح نہیں ، بلکہ یہ سب دنوں کا سردار ہے اور حدیث مبارک میں جمعہ کو مسلمانوں کے لیے یومِ عید قرار دیا گیا ہے ، تو جس طرح عید خوشی کا دن ہوتا ہے اور اس دن لوگ مبارکباد دیتے ہیں، اسی طرح جمعہ بھی مسلمانوں کے لیے خوشی کا دن ہے ، تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جمعہ کی مبارک دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔

   (2)نیز  مبارک دینا درحقیقت  دعائیہ کلمات ہیں کہ اس میں   دوسرے شخص کے لیے برکت کی دعا ہے  اور قرآن کریم میں دعا کا حکم موجود ہے ،تو جس طرح عام دنوں میں کسی کو برکت  وغیرہ کی دعادی جا سکتی ہے ، تو ظاہری بات ہے کہ جمعہ کے دن بھی دے سکتے ہیں۔

   (3)پھر مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کو جمعہ کی  مبارکباد دینے میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ  اس سے مسلمانوں  کے درمیان  محبت پیدا ہوتی یا اس   میں اضافہ ہوتا ہے  اور مسلمانوں  کی باہمی محبت   مطلوبِ شرع ہے، لہٰذا اس اعتبار سے بھی یہ ایک اچھا عمل ہے۔

   (4) نیز مسلمانوں کی  ایک بڑی تعداد   جمعہ کے دن ایک دوسرے کو مبارک دیتے اور اسے اچھا سمجھتے ہیں اور جس امر کو مسلمانوں  کی ایک بڑی تعداد اچھا جانے،وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہے(جبکہ وہ اصولِ شرع کے مخالف نہ ہو اور جمعہ کے دن مبارک دینے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے)۔

   تو بالجملہجمعہ کے دن مبارکباد دینے کی ممانعت پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے اور شریعت کے عمومی اصولوں کے تحت اس کا جواز، بلکہ مستحسن (اچھا عمل) ہونا واضح ہے، لہٰذا جمعہ کے دن ایک دوسرے کو مبارک دیناشرعی طور پر  بالکل جائز ، بلکہ  اچھاعمل ہے۔

   مطلق دعا کرنا قرآن کریم کا حکم  ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے﴿اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ترجمہ کنز الایمان :’’ دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے ۔‘‘ (پارہ 2 ، سورۃ البقرہ، آیت186)

   ایک اور مقام پرارشاد فرمایا : ﴿اُدْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ترجمہ کنز الایمان:’’مجھ سے دعا کرو ، میں قبول کروں گا ۔‘‘(پارہ 24 ، سورۃ المؤمن ، آیت60)

   جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور  عید کا دن ہے ۔چنانچہ حضورنبی  اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان یوم الجمعۃ سید الایام و اعظمھا عند اللہترجمہ : بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار  اور اللہ کے نزدیک سب سے عظمت والا  دن ہے۔ (سنن ابن ماجہ ، ج1 ، ص349 ، رقم الحدیث 1098 ، دار احیاء الکتب العربیہ ، بیروت)

   نیز ایک  مقام  پہ فرمایا: ان ھذا یوم عید  جعلہ  اللہ    للمسلمین ترجمہ :  جمعہ کو  اللہ تعالیٰ  نے مسلمانوں کے لیے عید کا دن بنایا ہے۔(سنن ابن ماجہ ، ج1 ، ص349 ، رقم الحدیث 1098 ، دار احیاء الکتب العربیہ، بیروت)

   مسلمانوں  کی باہمی محبت مطلوبِ شرع ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لا تدخلون الجنۃ حتی تؤمنواو لاتؤمنوا حتی تحابو ا ،اولا ادلکم علی شئ اذا فعلتموہ تحاببتم ؟ افشوا السلام بینکمترجمہ : تم جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتے،  جب تک ایمان نہ لے آؤ اور تم (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتے ، جب تک آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرو  ، تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ پھر ارشاد فرمایا: آپس میں سلام کو عام کرو ۔ (صحیح المسلم، ج1 ، ص74 ، رقم الحدیث 54 ، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   کسی بھی خوشی کے موقع پر مبارک دینا متعدد وجوہات کی بنیاد پر جائز،بلکہ اچھا  عمل ہے۔ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ  میں ہے: التھنئۃ مستحبۃ فی الجملۃ لا نھا مشارکۃ بالتبریک و الدعاء من المسلم لاخیہ المسلم فیما یسرہ و یرضیہ و لما فی ذلک من التواد و التراحم و التعاطف بین المسلمین و قد جاء فی القرآن الکریم تھنئۃ المؤمنین  علی ما ینالون من نعیم و ذلک فی قولہ تعالیٰ : ﴿كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(پارہ29، سورۃ المرسلٰت ، آیت43) و التھنئۃ  تکون بکل ما یسر و یسعد مما یوافق شرع اللہ تعالیٰ ترجمہ :فی الجملہ  تہنیت (مبارک دینا) مستحب عمل ہے ، اس وجہ سے کہ یہ  خوشی و شادمانی کے موقع پر ایک  مسلمان کی طرف سے  اپنے دوسرے مسلمان  بھائی کے  حق میں دعائے برکت دینے کے  مشارک  ہے اور اس وجہ سے کہ  اس میں باہم مسلمانوں   میں محبت ، رحم دلی  اور نرمی کا پہلو پایا جاتا ہے  اور تحقیق قرآنِ کریم میں  جو بھی نعمت ملے ، اس  پر مؤمنین کے لیے تہنیت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں   اور وہ قرآنِ کریم کا یہ فرمان ہے : کھاؤ اور پیو،تہنیت کے طور پر اس کا صلہ کہ  جو تم نے اعمال کیے۔اور ہر خوشی اور سعادت ملنے پر تہنیت(مبارکباد دینا) اللہ تعالیٰ کی شریعت کے موافق ہے ۔ ( الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ ، ج14، ص97 ، مطبوعہ کویت)

   نیز جس امر کو مسلمانوں کی  اکثریت اچھا جانے،وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔حدیث پاک میں ہے:’’ما رای المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن‘‘ترجمہ:جس امر کو مسلمان اچھا جانیں،وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔     (المستدرک علی الصحیحین،ج3،ص83،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   نیز سوال میں جو یہ  ذکر کیا گیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ، یہ عمل بدعت  ہے ، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔اس کا جواب یہ ہے کہ ایک چیز کےسنت سے ثابت  نہ ہونے سے ہر گز یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ناجائزیا ممنوع  ہو ، کیونکہ کئی امور ایسے ہیں کہ جو سنت سے ثابت  نہیں ، لیکن پھر بھی جائز ، بلکہ مستحب ہیں جیسے کسی صحابی یا بزرگ کے نام کے ساتھ  ہر مرتبہ بولتے لکھتے رضی اللہ  عنہ یا رحمۃ اللہ علیہ لگانا سنت نہیں ، لیکن ناجائز بھی نہیں ، بلکہ علماء نے اِسے مستحب قرار دیاہے۔

   تنویر الابصار میں ہے : یستحب الترضی للصحابۃ و الترحم للتابعین و من بعدھم من العلماء و العباد و سائر الاخیار ترجمہ : صحابہ کرام کے اسماء کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘ اور تابعین اور اُن کے بعد کے علماء و صالحین کے لیے ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘  کا استعمال مستحب ہے ۔ (تنویر الابصار ، ج9 ، ص520 ، مطبوعہ  پشاور)

   اوریاد رہے کہ  کسی عمل کا بدعت ہونا بھی اس کے ناجائز ہونے کی دلیل نہیں ، بلکہ بدعت وہ ممنوع ہوتی ہے کہ جو اسلام کے کسی اصول سے ٹکرائے یا سنت کو ختم کرنے والی ہو، جبکہ جمعہ  کے دن مبارک  دینا اسلام کے کسی اصول سے  ٹکرانے والا یا کسی سنت کو ختم کرنے والا عمل نہیں ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شئی ترجمہ : جس نے اسلام میں کوئی نیا کام ایجاد کیا ، اُس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا ، تو جس نے اُس پر عمل کیا اُس کی مثل اُسے (جس نے وہ کام ایجاد کیا ، اُس کو) بھی اجر دیا جائےگا اور اُن کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے اسلام میں کوئی بُرا کام نکالا ، اُس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا ، تو اُس پر عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر اُسے (جس نے بُرا کام نکالا ، اُس کو) بھی گناہ ملے گا اور اُن کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔   (صحیح المسلم ، ج1 ، ص341 ، مطبوعہ  کراچی)

   ایک دوسری حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے : شر الامور محدثاتھا و کل بدعۃ ضلالۃترجمہ : امور میں سے بُری ترین نئی باتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ، ج1 ، ص27 ، مطبوعہ  لاھور)

   مرقاۃ میں ہے : ای کل بدعۃ سیئۃ ضلالۃ لقولہ علیہ السلام : من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ ۔۔۔الخ ترجمہ : اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ہر بدعت سیئہ (بُری بدعت) گمراہی ہے ، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اسلام میں اچھی بات نکالی ۔۔۔ “ (مکمل حدیث پاک اوپر گزر چکی ۔مراد یہ ہے وعید بری بدعت کے بارے میں ہے، ورنہ اچھی بدعت کا ثبوت دوسری حدیث میں موجود ہے۔) (مرقاۃ المفاتیح ، ج 1 ، ص337 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں: قال الشافعی البدعۃ بدعتان محمودۃ و مذمومۃ فما وافق السنۃ فھو محمودۃ و ما خالفھا فھو مذموم ترجمہ : امام شافعی علیہ الرحمۃنے ارشاد فرمایا : بدعت دو اقسام پر مشتمل ہے : (۱) بدعت محمودہ یعنی حسنہ اور (۲) بدعت مذمومہ یعنی سیئہ۔ جو سنت کے موافق ہو ، وہ بدعت محمودہ اور جو سنت کے خلاف ہو ، وہ بدعت مذمومہ ہے ۔(فتح الباری ، ج 13 ، ص 315 ، مطبوعہ کراچی)

   بلکہ ایک کام بدعت ہونے کے باوجود جائز، مستحب ، بلکہ واجب بھی ہو سکتا ہے۔ علامہ ابن حجر ہیتمی مکی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: تنقسم الی خمسۃ احکام یعنی الوجوب و الندب الخ و طریق معرفۃ ذالک ان تعرض البدعۃ علی قواعد الشرع فای حکم دخلت فیہ فھی منہ فمن البدع الواجبۃ تعلم النحو الذی یفھم بہ القرآن و السنۃ و من البدع المحرمۃ مذھب نحو القدریۃ و من البدع المندوبۃ احداث نحو المدارس و الاجتماع لصلاۃ التراویح و من البدع المباحۃ المصافحۃ بعد الصلاۃ۔۔۔۔ الخ ترجمہ : بدعت کی پانچ اقسام ہیں : بدعت واجبہ و مستحبہ وغیرہ اِس کی پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ اُس بدعت کو قواعدِ شرع پر پیش کیا جائے ، تو جس حکم کے تحت وہ داخل ہو گی ، اُس پر بھی وہ ہی حکم لگے گا ،مثلا بعض بدعتیں واجب ہیں، جیسے قرآن و حدیث سمجھنے کے لیے علم نحو سیکھنا ، بعض حرام ہیں، جیسے قدریہ وغیرہ گمراہوں کا مذہب ، بعض مستحب ہوتی ہیں،جیسے مدارس کا قیام اور تراویح کے لیے جمع ہونا ، بعض مباح ہیں، جیسے نماز کے بعد مصافحہ کرنا ۔ (فتاوی حدیثیہ ، ص150 ، مطبوعہ  کراچی)

   البتہ اگر  کوئی شخص ان تمام دلائل کے باوجود بھی جمعہ کی مبارکباد کو ناجائز سمجھتا یا اسے ممنوع قرار دیتا ہے ، تو اس پر لازم ہے کہ اپنے مؤقف پر  صریح (واضح) نصِ شرعی پیش کرے، کیونکہ کسی کام کو مکروہ و ناجائز یا ممنوع کہنے کے لیے اُس کے ممنوع ہونے کی خاص دلیلِ شرعی کا ہونا ضروری ہے، حتی کہ علمائے کرام نے کسی عمل کو مکروہ کہنے پر بھی واضح دلیل کا ہونا ضروری  قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ سید ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ثبوت الکراھۃ اذ لا بد لھا من دلیل خاص ترجمہ : کسی چیز کو مکروہ کہنے کے لیے اُس کے مکروہ ہونے پر خاص دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ (ردالمحتار ، ج1 ، ص267 ، مطبوعہ  پشاور)

   تنبیہ: مختلف مواقع پر مسلمانوں کے درمیان رائج مبارکباد دینے کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے  ایک مکمل رسالہ بنام ”وصول الامانی باصول التھانئ تحریر فرمایا ہے ۔ تفصیلی معلومات  کے لیے اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم