Jiski Income Halal Aur Haram Dono Hon Uski Dawat Mein Jana

جس کی آمدنی حلال وحرام دونوں طرح کی ہو اس کی دعوت میں جانا

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2183

تاریخ اجراء: 26ربیع ا الثانی1445 ھ/11نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک شخص حرام ذریعہ سے بھی کماتا ہو،اور حلال سے بھی،اس صورت میں اس کے گھر دعوت کھانے کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس کاذریعہ آمدنی حرام و حلال دونوں پر  مشتمل ہو،تو ایسے شخص کے یہاں کھانے پینے سے بچنا بہتر ہےبالخصوص اس وقت جبکہ اس کا غالب مال حرام ہی ہو   ، لیکن اس کے یہاں کا کھانا یا پینا  مطلقا حرام نہیں بلکہ اس وقت حرام ہوگا جبکہ خاص اس چیز کے متعلق جو سامنے پیش کی گئی، علم ہو کہ یہ  شے بعینہ  وجہ حرام  سےہے،مثلابعینہ خاص یہی کھانے کی  چیزجوئے میں یارشوت وغیرہ میں ملی ہے ۔یاہمیں یہ معلوم ہوکہ حرام سے خریدی گئی چیزپرعقدونقدجمع ہواہو،یعنی حرام چیزکودکھاکرکہاگیاکہ اس کے بدلے فلاں  کھانے کی چیزدے دواورپھروہی حرام جودکھائی تھی وہ بیچنے والے کو دی اوراس کے بدلے کھانے کی چیزلی۔یاپھرحرام پہلے دے کرکہاکہ اس کے بدلے فلاں کھانے کی چیزدوتواس صورت میں اس چیزکاکھاناجائزنہیں ۔  اگرہمیں اس طرح کی تفصیل معلوم نہ ہوتوپھرکھاناحرام نہیں ہوگا۔

   فتاوی رضویہ میں ہے” سود خور کے یہاں  کھانا نہ چاہئے مگر حرام و ناجائزنہیں ، جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ یہ چیز جو ہمارے سامنے کھانے کو آئی بعینہٖ سود ہے مثلاً ان گیہوں  کی روٹی جو اس نے سود میں  لئے تھے یا سود کے روپے سے اس طرح خریدی گئی ہے کہ اس پر عقد و نقد جمع ہوگئے یعنی سود کا روپیہ دکھا کر اس کے عوض خریدی اور وہی روپیہ اسے دے دیا، جب تک یہ صورتیں  تحقیق نہ ہوں  وہ کھانا حرام ہے نہ ممنوع۔"(فتاوی رضویہ،ج 17،ص 359،360،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں:” اورحرام مال مثل زرغصب ورشوت وسرقہ واجرت معاصی وغیرہ سے جو چیز خریدی جائے اس کی چند صورتیں ہیں:

   ایک مثلا غلا فروش کے سامنے روپیہ ڈال دیا کہ اس کے گیہوں دے دے، اس نے دے دئے یا بزاز کو روپیہ پہلے دے دیا کہ اس کا کپڑا دے دے، یہ گیہوں اورکپڑا حرام ہے۔دوسرے یہ کہ روپیہ پہلے تو نہ دیا مگرعقد ونقد دونوں اس روپیہ پر جمع کئے، یعنی خاص اس حرام روپیہ کی تعیین سے اس کے عوض خریدا، اوریہی روپیہ قیمت میں ادا کیا، مثلا غلا فروش کو یہ حرام روپیہ دکھا کر کہا اس روپیہ کے گیہوں  دے دے، اس نے دے دئے اس نے یہی روپیہ اسے دے دیا، اس صورت میں یہ گیہوں حرام ہے۔(فتاوی رضویہ،ج 19،ص 646،647،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   فتاوی رضویہ میں بحوالہ رد المحتار موجود ہے:وان کان مالامختلطا مجتمعا من الحرام ولا یعلم شیئا منہ بعینہ حل لہ حکما ، والاحسن دیانۃ التنزہ عنہاور اگر مال حرام حلال سے مخلوط ہے اور اس  میں بعینہ کونسا مال حرام ہے،وہ نہ جانتا ہو، تو وہ حکماً اس کے لئے حلال ہے مگر دیانت کے اعتبار سے اس سے بچنا ہی زیادہ بہتر ہے ۔“ (فتاوی رضویہ،ج07،ص379، 380،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم